Fathima Zahra

فاطمہ زہرہ

فاطمہ زہرہ کی غزل

    موج لہرائے بھنور گھومے ہوا گائے غزل

    موج لہرائے بھنور گھومے ہوا گائے غزل ہر ادا میں اک نیا انداز دکھلائے غزل عارض و لب گیسو و قد تک کہاں محدود ہے زندگی کا معنی و مطلب بھی سمجھائے غزل تیرہ و تاریک راہوں میں کبھی رکھے چراغ اور کبھی رنگین آنچل بن کے لہرائے غزل زلف کی ٹھنڈی معطر چھاؤں میں بن جائے خواب چلچلاتی دھوپ ...

    مزید پڑھیے

    پیار کا رنگ اور گہرا ہو گیا

    پیار کا رنگ اور گہرا ہو گیا اس کا لہجہ میرے جیسا ہو گیا اونگھتا رہتا ہے شب بھر میرے ساتھ کیا مرا کمرہ بھی بوڑھا ہو گیا میں نے گھر چھوڑا تو کیا غم ساتھ تھا گھر کا سناٹا اکیلا ہو گیا ٹوٹتے لمحے صدا دیتے رہے وقت جیسے گونگا بہرا ہو گیا تھا جو زہرا عمر بھر کا رازداں چائے کی پیالی ...

    مزید پڑھیے

    کانپتے ہونٹوں سے جب بھی وہ دعا کرتا ہے

    کانپتے ہونٹوں سے جب بھی وہ دعا کرتا ہے لفظ آمین ہر اک ذرہ کہا کرتا ہے ہر ستارے میں چراغاں کا سماں ہے جیسے کون خوابوں کے جزیروں میں رہا کرتا ہے کتنے افسانے سنا دیتی ہے وہ ایک نظر دل تو معصوم ہے چپ چاپ سنا کرتا ہے تم یہ بتلاؤ شب و روز گزارے کیسے ہجر میں چاند تو آوارہ پھرا کرتا ...

    مزید پڑھیے

    آنے والے موسموں کو سوچتی رہتی ہوں میں

    آنے والے موسموں کو سوچتی رہتی ہوں میں لوگ کہتے ہیں کہ سپنے دیکھتی رہتی ہوں میں فکر کی دہلیز پر ننھے کھلونے کی طرح جوڑتا رہتا ہے وہ اور ٹوٹتی رہتی ہوں میں یہ محبت ہی تو ہے اس کی جو برسوں بعد بھی وہ مناتا ہے مجھے اور روٹھتی رہتی ہوں میں وقت جیسے وہ مصور اور میں اس کا قلم زندگی کے ...

    مزید پڑھیے

    اک کلی میں پوشیدہ کل حیات رکھ دی ہے

    اک کلی میں پوشیدہ کل حیات رکھ دی ہے تتلیوں کی آنکھوں میں کائنات رکھ دی ہے میں اک عام سی عورت میری آزمائش کیا میرے سامنے لا کر کیوں فرات رکھ دی ہے اس کے اک اشارے پر دل کا فیصلہ ٹھہرا میں نے جیت ہار اپنی جس کے ہات رکھ دی ہے عمر گھٹتی جاتی ہے فاصلہ نہیں کٹتا تو نے میری راہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    نور ہی نور ہے خیالوں میں

    نور ہی نور ہے خیالوں میں کون ہے ذہن کے اجالوں میں زندگی کیا جواب دوں تجھ کو تو نے الجھا دیا سوالوں میں صبح کا نور ہے ترا چہرہ شام کا رنگ تیرے بالوں میں اپنی گم گشتہ منزلوں کے نقوش ہم نے ڈھونڈے ہیں جلتے چھالوں میں میں نے جو سچ تھا کہہ دیا زہراؔ ڈھونڈیئے اب اسے حوالوں میں

    مزید پڑھیے

    وہ خود اپنے سے جب ملا ہوگا

    وہ خود اپنے سے جب ملا ہوگا دو گھڑی کو تو کھو گیا ہوگا لوگ ملتے ہیں بے غرض اب بھی کوئی افسانہ سن لیا ہوگا کس توقع پہ انتظار کریں تھا وہ جھونکا گزر گیا ہوگا کیا ملا رات بھر بھٹکنے سے چاند خود بھی یہ سوچتا ہوگا کوئی خوشبو جگائے گی پھر سے پھر نیا کوئی سلسلہ ہوگا مجھ کو جس پر گماں ...

    مزید پڑھیے