موج لہرائے بھنور گھومے ہوا گائے غزل

موج لہرائے بھنور گھومے ہوا گائے غزل
ہر ادا میں اک نیا انداز دکھلائے غزل


عارض و لب گیسو و قد تک کہاں محدود ہے
زندگی کا معنی و مطلب بھی سمجھائے غزل


تیرہ و تاریک راہوں میں کبھی رکھے چراغ
اور کبھی رنگین آنچل بن کے لہرائے غزل


زلف کی ٹھنڈی معطر چھاؤں میں بن جائے خواب
چلچلاتی دھوپ میں تپ کر نکھر آئے غزل


نغمگی جھرنے کی ٹھنڈک چاندنی کی دل کا نور
ایک جاں ہو جائے جب گندھ کر تو کہلائے غزل


رات کی تنہائیوں میں جب اداسی گھیر لے
ایک آنسو بن کے چپکے سے ٹپک جائے غزل


یاد کے بے رنگ لمحے ہونٹ جب سینے لگیں
روبرو زہراؔ کوئی آ کر سنا جائے غزل