Farrukh Zohra Gilani

فرخ زہرا گیلانی

فرخ زہرا گیلانی کی نظم

    خواب

    کیا کہوں خواب زندگی تجھ سے وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا چاہتوں کے کرن کرن لمحے جب مری آنکھ میں اترتے تھے فاصلے فاصلے نہ لگتے تھے کیا کہوں ضبط حال غم تجھ سے آج اپنا نہ کل ہی اپنا ہے یہ زمانہ بھی کیا زمانہ ہے اب یہ عالم ہے میری صبحوں کا تجھ کو کھو کر سراب شاموں کا عکس بن کر ٹھہر گئی ہوں ...

    مزید پڑھیے

    بھول

    نادانی میں کیسے کیسے خواب سہانے دیکھے تھے میں سمجھی تھی چاہت کے یہ ناطے جاناں سب رشتوں سے افضل ہوں گے ہاں لیکن وہ خواب تھا ایسا جس کی تو تعبیر نہیں تھا جیون کی تفسیر نہیں تھا

    مزید پڑھیے

    کہر کے اس پار

    کہر کے پار اور دور کہیں کہکشاؤں کی پیار بستی میں چاند تاروں کی پھیلی دنیا میں بادلوں کے رواں جزیروں میں کون ہوگا جو رہ رہا ہوگا گرچہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ہمیں پھر بھی تلاش کرنا ہے جو کہ تیری حسین آنکھوں میں جو کہ میرے بھی قلب مضطر میں روز جیتا ہے روز مرتا ہے وہی احساس کا گھنا ...

    مزید پڑھیے

    عورت

    حرف معصوم تھے محکوم تھے محصور بھی تھے لفظ مصلوب ہوئے ہونٹوں پہ آ کے تیرے تجھ کو انعام ملا تو کہ ایثار تھی جھنکار تھی مہکار بھی تھی مدتوں جہل کے تاریک شبستانوں میں زندہ درگور ہوئی اور جلائی بھی گئی تو کہ ہر روپ میں ہی بے بس و مجبور رہی پھر بھی تحسین کے لائق ہے تیرا عزم جواں تو نے ...

    مزید پڑھیے

    اک ستاروں بھری رات

    اک ستاروں سے بھری خواب سی مہکار سی رات لان میں بکھری ہوئی چاند کی بیکل کرنیں وقت ساکن تھا یا لمحہ تھا کوئی ٹھہرا ہوا ذہن میں سمٹی ہوئی سوچ ابھرنے سی لگی آنکھ جھپکی تو میں کیا دیکھتی ہوں وسعت شب پہ وہ چھایا ہوا تنہا تنہا مجھ کو اپنا سا لگا میری جانب کسی بڑھتے ہوئے اک سائے نے مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    آرزو

    یہ رضائے رب جلیل تھی کہ نبی نے سیر کی عرش کی کوئی سویا سایہ تیغ میں تو رضائے رب جلی ملی کبھی طور پہ ہوئی انتہا کہ خدا بھی جلوہ نما ہوا کبھی رحمتوں کا نزول تھا کبھی عشق کا یہ حصول تھا کہ نہایت اس کی حسین تھا کہیں آرزوئے وطن ہوئی کہیں خامشی بھی سخن ہوئی کہیں چاہتوں کا خراج تھا

    مزید پڑھیے

    کہر کے اس پار دیکھ

    روشنی نکھری ہوئی ہے کہر کے اس پار دیکھ تیرگی سہمی ہوئی ہے کہر کے اس پار دیکھ ہر طرف پھیلی ہوئی بارود کی ہے بو مگر فاختہ بیٹھی ہوئی ہے کہر کے اس پار دیکھ موسموں کی زردیوں سے اس قدر نہ خوف کھا بوئے گل مہکی ہوئی ہے کہر کے اس پار دیکھ بے سکونی بے قراری سب کے سب ہیں عارضی بے خودی ...

    مزید پڑھیے