آرزو

یہ رضائے رب جلیل تھی
کہ نبی نے سیر کی عرش کی
کوئی سویا سایہ تیغ میں
تو رضائے رب جلی ملی
کبھی طور پہ ہوئی انتہا
کہ خدا بھی جلوہ نما ہوا
کبھی رحمتوں کا نزول تھا
کبھی عشق کا یہ حصول تھا
کہ نہایت اس کی حسین تھا
کہیں آرزوئے وطن ہوئی
کہیں خامشی بھی سخن ہوئی
کہیں چاہتوں کا خراج تھا