عورت
حرف معصوم تھے محکوم تھے محصور بھی تھے
لفظ مصلوب ہوئے ہونٹوں پہ آ کے تیرے
تجھ کو انعام ملا
تو کہ ایثار تھی جھنکار تھی مہکار بھی تھی
مدتوں جہل کے تاریک شبستانوں میں
زندہ درگور ہوئی اور جلائی بھی گئی
تو کہ ہر روپ میں ہی بے بس و مجبور رہی
پھر بھی تحسین کے لائق ہے تیرا عزم جواں
تو نے جنگیں بھی لڑیں جام شہادت بھی پیا
تو نے خطبے بھی دئے شام کے بازاروں میں
تو نے فطرت کو بدل ڈالا تھا دیں کی خاطر
نہ تلاطم بپا
نہ کوئی لہر ہے
کاش آئے کوئی
جو سفینے کے ٹوٹے ہوئے
کچھ شکستہ سے تختوں کو
پھر جوڑ دے
میرے جیون کو وہ
اک نیا موڑ دے