اک ستاروں بھری رات

اک ستاروں سے بھری خواب سی مہکار سی رات
لان میں بکھری ہوئی چاند کی بیکل کرنیں
وقت ساکن تھا یا لمحہ تھا کوئی ٹھہرا ہوا
ذہن میں سمٹی ہوئی سوچ ابھرنے سی لگی
آنکھ جھپکی تو میں کیا دیکھتی ہوں
وسعت شب پہ وہ چھایا ہوا تنہا تنہا
مجھ کو اپنا سا لگا
میری جانب کسی بڑھتے ہوئے اک سائے نے
مجھ کو چونکا سا دیا
میرے اور چاند کے مابین وہ حائل سا ہوا
پیار آنکھوں میں بہت خواب سجائے اس نے
اور کچھ یاد نہیں رسم محبت کی مجھے
پھر اسی لمحے مرے ذہن کے اک گوشے میں
ایک انجانے سے احساس نے انگڑائی لی
ملنے والے کے بچھڑنے کی گھڑی باقی ہے
ان رسومات کی اک اور کڑی باقی ہے
اور ایسا ہی ہوا
پھر وہی چاند وہی میں ہوں وہی درد کی رات