فروغ زیدی کی غزل

    ہیں مری پرواز کے تیور نئے

    ہیں مری پرواز کے تیور نئے ساتھ میرے دیکھیے منظر نئے اک پرانے میکدے میں تشنگی ڈھونڈتی ہے ساقی و ساغر نئے بچپنے کا گھر نہ بھولے گا کبھی چاہے جتنے آپ کے ہوں گھر نئے کیجئے ہر علم سے آراستہ بچیوں کے ہیں یہی زیور نئے اک نئے فٹ پاتھ پر مزدور تھا مفلسی نے جب دیے بستر نئے اب ذرا ...

    مزید پڑھیے

    عقل کی ایسی تابع داری ہے

    عقل کی ایسی تابع داری ہے خواہشوں میں بھی انکساری ہے چل پڑی ہے اجل کی راہوں پر زندگی بے خبر سواری ہے دل سے اپنے جو ہار جاتے ہیں ساری دنیا انہیں سے ہاری ہے اس معیشت میں کامیابی کا راز کون کتنا بڑا جواری ہے دین سمجھے ہیں جس کو آپ فروغؔ شیخ جی کی دکان داری ہے

    مزید پڑھیے

    علم و ہنر سے قوم کو رغبت نہیں رہی

    علم و ہنر سے قوم کو رغبت نہیں رہی اس پر شکایتیں کہ فضیلت نہیں رہی بدلے گا کیا نظام کب آئے گا انقلاب جب نوجواں لہو میں حرارت نہیں رہی مظلوم کو دلائے جو ہر ظلم سے نجات ایسی جہاں میں کوئی عدالت نہیں رہی سجدے میں جا کے مانگنا بیکار نعمتیں کچھ بھی کہو اسے یہ عبادت نہیں رہی فتوے لئے ...

    مزید پڑھیے

    مل کے بیٹھیں تو ہم کہیں پہلے

    مل کے بیٹھیں تو ہم کہیں پہلے بانٹ لیتے ہیں کیوں زمیں پہلے ہوگا تیرا بھی اعتبار مجھے کر لوں اپنا میں گر یقیں پہلے کیوں کسی در پہ آسماں جھکتا گر نہ جھکتی مری جبیں پہلے دل میں شاید ابھی بھی ہے موجود آؤ ڈھونڈیں اسے یہیں پہلے کب یہ سنتے ہیں داستاں پوری بول اٹھتے ہیں نکتہ چیں ...

    مزید پڑھیے

    کیوں وہ میرا مرکز افکار تھا

    کیوں وہ میرا مرکز افکار تھا جس کے ہونے سے مجھے انکار تھا یوں تو مشکل تھی بہت تیری تلاش خود کو اپنا اور بھی دشوار تھا اس کے حصے میں در و دیوار تھے میرا حصہ سایۂ دیوار تھا رفتہ رفتہ سب کے جیسا ہو گیا پہلے میں بھی صاحب کردار تھا دوریوں نے قربتیں بخشیں ہمیں ملنا جلنا باعث تکرار ...

    مزید پڑھیے

    غم ہجراں سے ذرا یوں بھی نبھائی جائے

    غم ہجراں سے ذرا یوں بھی نبھائی جائے محفل غیر سہی آج سجائی جائے اختلافات کی بنیاد ہے گہری لیکن اس پہ نفرت کی نہ دیوار اٹھائی جائے پہلے منزل کا ہم اپنی تو تعین کر لیں پھر زمانے کو کوئی راہ دکھائی جائے مے کے بارے میں خیالات بدل جائیں گے حضرت شیخ کو تھوڑی سی پلائی جائے سب کے ...

    مزید پڑھیے

    خواہشوں کا امتحاں ہونے تو دو

    خواہشوں کا امتحاں ہونے تو دو فاصلے کچھ درمیاں ہونے تو دو مے کشی بھی با وضو ہوگی یہاں شیخ کو پیر مغاں ہونے تو دو منزل مقصود سے آئی صدا دل کو میر کارواں ہونے تو دو خامشی آواز بن جائے گی یوں بے زبانی کو زباں ہونے تو دو کیا نہیں ممکن ہے کچھ صیاد سے اس کو اپنا باغباں ہونے تو دو

    مزید پڑھیے

    کوئی کعبہ نہ کلیسا نہ صنم میرا ہے

    کوئی کعبہ نہ کلیسا نہ صنم میرا ہے اک نئے خواب کی دھرتی پہ قدم میرا ہے ساری دنیا سے ہمہ وقت جڑا رہتا ہوں رابطہ خود سے مگر آج بھی کم میرا ہے دل کو احساس کے اس موڑ پہ لائی ہے حیات اب نہ میری ہے خوشی اور نہ غم میرا ہے اب بھی ڈرتا ہوں ہر اک بات میں لکھنے سے فروغؔ تم یہ کہتے ہو کہ آزاد ...

    مزید پڑھیے

    دل کے اندر اک ذرا سی بے کلی ہے آج بھی

    دل کے اندر اک ذرا سی بے کلی ہے آج بھی جو مرے افکار میں رس گھولتی ہے آج بھی یوں تو وہ دیوار بن کے آ گیا ہے درمیاں میری اپنے آپ سے کچھ دوستی ہے آج بھی پتھروں پر چل کے سب نے پاؤں زخمی کر لئے جبکہ اس کے در کا رستہ مخملی ہے آج بھی رخ ہواؤں کا بدلنا جانتے ہیں لوگ جو بس انہیں کے ہر دیے ...

    مزید پڑھیے

    ہر کسی کی ہے زبانی دوستی

    ہر کسی کی ہے زبانی دوستی کیا کسی کی آزمانی دوستی تھے مسافر دو الگ رستوں کے ہم ہو گئی بس ناگہانی دوستی ڈھونڈھتا ہے ہر رفاقت میں نئی دل ہمیشہ اک پرانی دوستی دفن ہے سینے میں میرے آج بھی اس کی میری آنجہانی دوستی دوستوں کو دل دکھانا آ گیا آ گئی ہم کو نبھانی دوستی کچھ تو تیری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2