علم و ہنر سے قوم کو رغبت نہیں رہی
علم و ہنر سے قوم کو رغبت نہیں رہی
اس پر شکایتیں کہ فضیلت نہیں رہی
بدلے گا کیا نظام کب آئے گا انقلاب
جب نوجواں لہو میں حرارت نہیں رہی
مظلوم کو دلائے جو ہر ظلم سے نجات
ایسی جہاں میں کوئی عدالت نہیں رہی
سجدے میں جا کے مانگنا بیکار نعمتیں
کچھ بھی کہو اسے یہ عبادت نہیں رہی
فتوے لئے ہیں شیخ سے پیر مغاں نے خاص
پینے میں اب ذرا بھی قباحت نہیں رہی
مسجد کا رخ کیا ہے جناب فروغؔ نے
لگتا ہے اب گناہ میں لذت نہیں رہی