غم ہجراں سے ذرا یوں بھی نبھائی جائے
غم ہجراں سے ذرا یوں بھی نبھائی جائے
محفل غیر سہی آج سجائی جائے
اختلافات کی بنیاد ہے گہری لیکن
اس پہ نفرت کی نہ دیوار اٹھائی جائے
پہلے منزل کا ہم اپنی تو تعین کر لیں
پھر زمانے کو کوئی راہ دکھائی جائے
مے کے بارے میں خیالات بدل جائیں گے
حضرت شیخ کو تھوڑی سی پلائی جائے
سب کے اعمال پہ تنقید ہے شیوہ جس کا
بات کردار پہ اس کے بھی اٹھائی جائے
یوں ہی اقوام کی تقدیر سنورتی ہے فروغؔ
نعمت علم پہ کچھ بات چلائی جائے