دل کے اندر اک ذرا سی بے کلی ہے آج بھی

دل کے اندر اک ذرا سی بے کلی ہے آج بھی
جو مرے افکار میں رس گھولتی ہے آج بھی


یوں تو وہ دیوار بن کے آ گیا ہے درمیاں
میری اپنے آپ سے کچھ دوستی ہے آج بھی


پتھروں پر چل کے سب نے پاؤں زخمی کر لئے
جبکہ اس کے در کا رستہ مخملی ہے آج بھی


رخ ہواؤں کا بدلنا جانتے ہیں لوگ جو
بس انہیں کے ہر دیے میں روشنی ہے آج بھی


جن سوالوں کا نہیں ہوتا کوئی مثبت جواب
ان سوالوں سے الجھتا آدمی ہے آج بھی


سیکھتا ہے یوں تو انساں ہر طریقے کی زباں
سب سے آساں سب سے بہتر خامشی ہے آج بھی


جس کے چلتے میں نے ڈھونڈے تھے کئی رستے نئے
ڈھونڈھتی مجھ کو وہی آوارگی ہے آج بھی


کتنے ڈوبے کتنے ابھرے کیا خبر ان کو فروغؔ
بہہ رہی چپ چاپ یوں ہی ہر ندی ہے آج بھی