Farah iqbal

فرح اقبال

ریڈیو ٹی وی اینکر

TV Anchor, Radio Host

فرح اقبال کی غزل

    حادثے ہونے لگیں تو ہم دعا کو ڈھونڈتے ہیں

    حادثے ہونے لگیں تو ہم دعا کو ڈھونڈتے ہیں مسلکوں کی قید میں رہ کر خدا کو ڈھونڈھتے ہیں نوچتے ہیں ہم بدن سے خود قبائے زندگانی اور پھر ہم گمشدہ اپنی ردا کو ڈھونڈتے ہیں ہم فضا میں گھولتے ہیں زہر خود سوچوں کا اپنی سانس لینے کے لیے پھر خود ہوا کو ڈھونڈتے ہیں مصلحت کی بادبانی کشتیوں ...

    مزید پڑھیے

    خود ہی دیا جلاتی ہوں

    خود ہی دیا جلاتی ہوں اپنی شام سجاتی ہوں میں ہی اپنے خوابوں کو اکثر آگ لگاتی ہوں شہر تمنا میں جا کر کتنے پھول کھلاتی ہوں تم بھی مجھ سے روٹھے ہو میں بھی کہاں مناتی ہوں اپنی اس تنہائی کو یادوں سے بہلاتی ہوں

    مزید پڑھیے

    کیسے منظر ہیں جو ادراک میں آ جاتے ہیں

    کیسے منظر ہیں جو ادراک میں آ جاتے ہیں جیسے موتی کسی پوشاک میں آ جاتے ہیں میں جھٹکتی ہوں سبھی ذہن سے یہ وہم و گماں پھر بھی اکثر یہ مری تاک میں آ جاتے ہیں جیسا بھیجا ہے مجھے آپ نے پیغام وفا ایسے نامے تو کئی ڈاک میں آ جاتے ہیں اپنی ہستی پہ گماں اتنا نہ کیجے صاحب پیکر خاک تو پھر ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تو ساتھ چلنے کا ہنر اب تک نہیں آیا

    ہمیں تو ساتھ چلنے کا ہنر اب تک نہیں آیا دیا اپنے مقدر کا نظر اب تک نہیں آیا تھیں جس بادل کے رستے پر ہوا کی منتظر آنکھیں وہ شہروں تک تو آیا تھا ادھر اب تک نہیں آیا نہ جانے جنگلوں میں ہم ملے کتنے درختوں سے گھنا جس کا لگے سایہ شجر اب تک نہیں آیا تذبذب کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے وہ اک ...

    مزید پڑھیے

    تمنا تھی جو آنکھوں میں وہی لہجے میں رکھ دینا

    تمنا تھی جو آنکھوں میں وہی لہجے میں رکھ دینا میں آؤں تو امیدوں کا دیا رستے میں رکھ دینا سمیٹو گے کبھی چادر جو تم عمر گریزاں کی بس اک خوشبو بھرا لہجہ مرے حصے میں رکھ دینا سنبھالا ہے جسے دل کے نہاں خانوں میں برسوں سے محبت کا وہی سکہ مرے کاسے میں رکھ دینا چلو ملتے ہیں جنموں کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت سے یہاں ٹھہرا ہوا پانی ہے

    ایک مدت سے یہاں ٹھہرا ہوا پانی ہے دشت تنہائی ہے اور آنکھ میں ویرانی ہے دیکھو خاموش سی جھیلوں کے کنارے اب بھی سوگ میں لپٹے درختوں کی فراوانی ہے آئنہ دیکھنے کی تاب کہاں تھی مجھ میں صاف لکھی تھی جو چہرے پہ پشیمانی ہے دشت وحشت میں چراغوں کو جلاؤں کیسے ان چراغوں سے ہواؤں کو ...

    مزید پڑھیے

    کہیں یقیں سے نہ ہو جائیں ہم گماں کی طرح

    کہیں یقیں سے نہ ہو جائیں ہم گماں کی طرح سنبھال کر ہمیں رکھیے متاع جاں کی طرح جسے صدف کی طرح آنکھ میں چھپایا تھا وہ کھو نہ جائے کہیں اشک رائیگاں کی طرح ہمیں بھی خوف تلاطم نے گھیر رکھا تھا کھلا نہیں تھا ابھی وہ بھی بادباں کی طرح نصاب عشق میں سارے سوال مشکل تھے محبتیں بھی تھیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ اجالے سے کراں تا بہ کراں کیسے ہیں

    یہ اجالے سے کراں تا بہ کراں کیسے ہیں تیرے آنے کے مرے دل میں گماں کیسے ہیں فرط حیرت سے یہ آئینہ انہیں دیکھتا ہے ایک چہرے میں کئی چہرے نہاں کیسے ہیں کوئی شیشہ ہے کہ پتھر ہے کہ سپنا کوئی جو نہ پہچان سکیں شیشہ گراں کیسے ہیں تیرے رستے سے جدا تھا مرا رستہ لیکن تیرے دل پر مرے قدموں کے ...

    مزید پڑھیے

    مدتوں ہم سے ملاقات نہیں کرتے ہیں

    مدتوں ہم سے ملاقات نہیں کرتے ہیں اب تو سائے بھی کوئی بات نہیں کرتے ہیں دشت حیراں کا پتہ آج بھی معلوم نہیں اب تو راہوں میں بھی ہم رات نہیں کرتے ہیں معبدوں میں جو جلاتے تھے دیے میرے لیے اب سر شام مناجات نہیں کرتے ہیں بانٹ دیتے ہیں سبھی خواب سہانے اپنے دامن درد سے خیرات نہیں کرتے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں ہم کیا کسی سے دل کی ویرانی نہیں جاتی

    کہیں ہم کیا کسی سے دل کی ویرانی نہیں جاتی ہماری زندگی بھی ہم سے پہچانی نہیں جاتی بظاہر ایسا لگتا ہے سبھی ہیں مست دنیا میں مگر چہروں سے پوشیدہ پریشانی نہیں جاتی روا داری کی چادر سے کہاں تک خود کو ڈھاپیں گے کہ اس کم ظرف دنیا میں تو یہ تانی نہیں جاتی بہت سمجھا لیا دل کو بچھڑنا تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3