حادثے ہونے لگیں تو ہم دعا کو ڈھونڈتے ہیں

حادثے ہونے لگیں تو ہم دعا کو ڈھونڈتے ہیں
مسلکوں کی قید میں رہ کر خدا کو ڈھونڈھتے ہیں


نوچتے ہیں ہم بدن سے خود قبائے زندگانی
اور پھر ہم گمشدہ اپنی ردا کو ڈھونڈتے ہیں


ہم فضا میں گھولتے ہیں زہر خود سوچوں کا اپنی
سانس لینے کے لیے پھر خود ہوا کو ڈھونڈتے ہیں


مصلحت کی بادبانی کشتیوں میں بیٹھ کر ہم
عشق کے گہرے سمندر میں وفا کو ڈھونڈتے ہیں


وقت کی بھیگی ہوا میں ساحلوں کی ریت پر اب
عمر رفتہ کے بکھرتے نقش پا کو ڈھونڈتے ہیں


کاسۂ دل کی کھنکتی خواہشوں کے شور و غل میں
آسمانوں سے اترتی اک صدا کو ڈھونڈھتے ہیں


گرد ماضی سے لپٹتے ان گنت چہروں کے پیچھے
آج بھی ہم تیرے چہرے کی ضیا کو ڈھونڈتے ہیں