یہ اجالے سے کراں تا بہ کراں کیسے ہیں

یہ اجالے سے کراں تا بہ کراں کیسے ہیں
تیرے آنے کے مرے دل میں گماں کیسے ہیں


فرط حیرت سے یہ آئینہ انہیں دیکھتا ہے
ایک چہرے میں کئی چہرے نہاں کیسے ہیں


کوئی شیشہ ہے کہ پتھر ہے کہ سپنا کوئی
جو نہ پہچان سکیں شیشہ گراں کیسے ہیں


تیرے رستے سے جدا تھا مرا رستہ لیکن
تیرے دل پر مرے قدموں کے نشاں کیسے ہیں


ایک الجھن ہے جو گھیرے میں لیے رہتی ہے
ہم کو ہونا تھا کہیں اور یہاں کیسے ہیں


میں تو پھولوں کی مکیں خواب نگر کی باسی
پھر یہ آنسو مری آنکھوں سے رواں کیسے ہیں


اب جو لوٹے ہو تو آنکھوں میں اداسی کیوں ہے
پس مژگاں یہ ستارے سے نہاں کیسے ہیں


وہ جو بھٹکے ہی نہیں تھے کبھی منزل سے فرحؔ
ان کے چہروں پہ لکھے سود و زیاں کیسے ہیں