تمنا تھی جو آنکھوں میں وہی لہجے میں رکھ دینا
تمنا تھی جو آنکھوں میں وہی لہجے میں رکھ دینا
میں آؤں تو امیدوں کا دیا رستے میں رکھ دینا
سمیٹو گے کبھی چادر جو تم عمر گریزاں کی
بس اک خوشبو بھرا لہجہ مرے حصے میں رکھ دینا
سنبھالا ہے جسے دل کے نہاں خانوں میں برسوں سے
محبت کا وہی سکہ مرے کاسے میں رکھ دینا
چلو ملتے ہیں جنموں کے کہیں اس پار تاروں میں
وہاں اک دائمی لمحہ مرے ماتھے پہ رکھ دینا
محبت کی حسیں وادی میں تم ٹھہرے نہ ہم ٹھہرے
اب ان نرگس کے پھولوں کو کہیں رستے میں رکھ دینا
نہیں لکھنا کوئی قصہ مری ناکام حسرت کا
بس اک ٹوٹا ہوا تارہ مرے کتبے میں رکھ دینا
بہا دینا سبھی یادیں کہیں جا کر سمندر میں
ندامت کا بس اک موتی کسی سجدے میں رکھ دینا