Faizan Arif

فیضان عارف

فیضان عارف کی غزل

    حال دل صرف تمہیں ہم نے سنانے کے لیے

    حال دل صرف تمہیں ہم نے سنانے کے لیے کتنے الفاظ لکھے سارے زمانے کے لیے کھول رکھے ہیں دریچے اسی امید کے ساتھ لوٹ آئے گی ہوا دیپ جلانے کے لیے اس کا ملنا ہی مقدر میں نہیں تھا ورنہ ہم نے کیا کچھ نہیں کھویا اسے پانے کے لیے جانے کب آئے گا وہ میری محبت کا سفیر میرے ہر خواب کی تعبیر ...

    مزید پڑھیے

    نئے شہروں کی جب بنیاد رکھنا

    نئے شہروں کی جب بنیاد رکھنا پرانے شہر بھی آباد رکھنا پڑی ہو پاؤں میں زنجیر پھر بھی ہمیشہ ذہن کو آزاد رکھنا کسی کی یاد جب شدت سے آئے بہت مشکل ہے خود کو یاد رکھنا دکھوں نے جڑ پکڑ لی میرے اندر ضروری تھا کوئی ہم زاد رکھنا خدایا شاخ پر کلیاں کھلانا کوئی پودا نہ بے اولاد ...

    مزید پڑھیے

    جذبات میں جو میرے مقابل کھڑے ہوئے

    جذبات میں جو میرے مقابل کھڑے ہوئے احساس تب ہوا مرے بچے بڑے ہوئے دشمن کی زد سے اس کو بچا تو لیا مگر سینے میں میرے تیر ہیں اب تک گڑے ہوئے نایاب کس قدر ہیں تمہیں کچھ خبر نہیں ہم مل گئے جو راہ میں تم کو پڑے ہوئے اک عشق کو تو تاج محل سے ملا دوام اک عشق کی مثال وہ کچے گھڑے ہوئے تقدیر ...

    مزید پڑھیے

    دعاؤں کے دیے جب جل رہے تھے

    دعاؤں کے دیے جب جل رہے تھے مرے غم آنسوؤں میں ڈھل رہے تھے کسی نیکی کا سایہ تھا سروں پر جو لمحے آفتوں کے ٹل رہے تھے ہوا احساس یہ آدھی صدی بعد یہاں پر صرف رستے چل رہے تھے وطن کی عظمتوں کو ڈسنے والے وطن کی آستیں میں پل رہے تھے بہت نزدیک تھی منزل ہماری مگر سب راستے دلدل رہے ...

    مزید پڑھیے

    مرے گمان کی حد سے نکلنے والا تھا

    مرے گمان کی حد سے نکلنے والا تھا وہ مجھ سے پہلے ہی رستہ بدلنے والا تھا تجھے ہی جانے کی عجلت تھی اے مسافر من وگرنہ میں بھی ترے ساتھ چلنے والا تھا جہاں پہ قافلۂ سالار تھک کے بیٹھ گیا وہیں سے اک نیا رستہ نکلنے والا تھا نہیں تھی مجھ کو ضرورت کسی سہارے کی کہ میں تو آپ ہی گر کر ...

    مزید پڑھیے

    ظلم کی راہ میں دیوار ہوا کرتے تھے

    ظلم کی راہ میں دیوار ہوا کرتے تھے ہم کبھی عزم کے کہسار ہوا کرتے تھے شہر سنسان ہے ان چاند سے چہروں کے بغیر جو دریچوں سے نمودار ہوا کرتے تھے مجھ سے مل کر ہیں عجب عالم حیرانی میں جو مرے فن کے پرستار ہوا کرتے تھے زندگی کس قدر آسان ہوا کرتی تھی لوگ جب صاحب کردار ہوا کرتے تھے اس کی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اہتمام سفر کا ضرور کرنا ہے

    کچھ اہتمام سفر کا ضرور کرنا ہے کہ اس کے شہر سے ہو کر مجھے گزرنا ہے میں چپ نہیں ہوں کسی مصلحت کے پیش نظر میں جانتا ہوں کہاں اختلاف کرنا ہے ہمارے جسم سے پتھر بندھے ہوئے ہیں مگر سمندروں کی تہوں سے ہمیں ابھرنا ہے پھسل رہی ہے جوانی کی ریت مٹھی سے گزر رہے ہیں مرے دن انہیں گزرنا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے