حال دل صرف تمہیں ہم نے سنانے کے لیے

حال دل صرف تمہیں ہم نے سنانے کے لیے
کتنے الفاظ لکھے سارے زمانے کے لیے


کھول رکھے ہیں دریچے اسی امید کے ساتھ
لوٹ آئے گی ہوا دیپ جلانے کے لیے


اس کا ملنا ہی مقدر میں نہیں تھا ورنہ
ہم نے کیا کچھ نہیں کھویا اسے پانے کے لیے


جانے کب آئے گا وہ میری محبت کا سفیر
میرے ہر خواب کی تعبیر بتانے کے لیے


آندھیاں برسر پیکار نظر آتی ہیں
میری خواہش کے چراغوں کو بجھانے کے لیے


پھول سے لوگ بڑی دور سے آئے فیضانؔ
تاج کانٹوں کا مرے سر پہ سجانے کے لیے