جذبات میں جو میرے مقابل کھڑے ہوئے
جذبات میں جو میرے مقابل کھڑے ہوئے
احساس تب ہوا مرے بچے بڑے ہوئے
دشمن کی زد سے اس کو بچا تو لیا مگر
سینے میں میرے تیر ہیں اب تک گڑے ہوئے
نایاب کس قدر ہیں تمہیں کچھ خبر نہیں
ہم مل گئے جو راہ میں تم کو پڑے ہوئے
اک عشق کو تو تاج محل سے ملا دوام
اک عشق کی مثال وہ کچے گھڑے ہوئے
تقدیر کا اصول ہے اے دوست صبر کر
روزے رکھے غریب نے تو دن بڑے ہوئے
وہ کیا گیا کہ اب تو سبھی کچھ بدل گیا
پہلے تو شب ہی تھی سو اب دن بھی کڑے ہوئے
فیضانؔ ایسے دل میں بسی ہے کسی کی یاد
جیسے انگوٹھیوں میں نگینے جڑے ہوئے