مرے گمان کی حد سے نکلنے والا تھا
مرے گمان کی حد سے نکلنے والا تھا
وہ مجھ سے پہلے ہی رستہ بدلنے والا تھا
تجھے ہی جانے کی عجلت تھی اے مسافر من
وگرنہ میں بھی ترے ساتھ چلنے والا تھا
جہاں پہ قافلۂ سالار تھک کے بیٹھ گیا
وہیں سے اک نیا رستہ نکلنے والا تھا
نہیں تھی مجھ کو ضرورت کسی سہارے کی
کہ میں تو آپ ہی گر کر سنبھلنے والا تھا
میں لوٹ آیا سمندر سے ڈر کے جب فیضانؔ
اسی گھڑی وہ خزانہ اگلنے والا تھا