کچھ اہتمام سفر کا ضرور کرنا ہے
کچھ اہتمام سفر کا ضرور کرنا ہے
کہ اس کے شہر سے ہو کر مجھے گزرنا ہے
میں چپ نہیں ہوں کسی مصلحت کے پیش نظر
میں جانتا ہوں کہاں اختلاف کرنا ہے
ہمارے جسم سے پتھر بندھے ہوئے ہیں مگر
سمندروں کی تہوں سے ہمیں ابھرنا ہے
پھسل رہی ہے جوانی کی ریت مٹھی سے
گزر رہے ہیں مرے دن انہیں گزرنا ہے
یہ کائنات کی تصویر نا مکمل ہے
ابھی تو اس میں بہت رنگ اس نے بھرنا ہے
مرا مزاج نہیں ہے مگر مجھے فیضانؔ
کسی کے واسطے اک عہد سے مکرنا ہے