ظلم کی راہ میں دیوار ہوا کرتے تھے
ظلم کی راہ میں دیوار ہوا کرتے تھے
ہم کبھی عزم کے کہسار ہوا کرتے تھے
شہر سنسان ہے ان چاند سے چہروں کے بغیر
جو دریچوں سے نمودار ہوا کرتے تھے
مجھ سے مل کر ہیں عجب عالم حیرانی میں
جو مرے فن کے پرستار ہوا کرتے تھے
زندگی کس قدر آسان ہوا کرتی تھی
لوگ جب صاحب کردار ہوا کرتے تھے
اس کی زلفوں میں چمکتے تھے ستارے ہر پل
ہر گھڑی رات کے آثار ہوا کرتے تھے
اب وہاں فصل عمارات کی اگ آئی ہے
جب جگہ پر گھنے اشجار ہوا کرتے تھے
تیری پلکوں کے اشارے کو سمجھ جاتے تھے
ہم کبھی اتنے سمجھ دار ہوا کرتے تھے
تیری تصویر نگاہوں میں سجی رہتی تھی
ہم تو سوتے میں بھی بیدار ہوا کرتے تھے
تجھ کو اب یاد نہیں ہے کہ تری خاطر ہم
کیسے رسوا سر بازار ہوا کرتے تھے
جانے کس حال میں ہوگی وہ مری جان حیات
جس کی خاطر مرے اشعار ہوا کرتے تھے
جا چکے اب وہ زمانے کہ مرے شہر کے لوگ
عشق میں تیرے گرفتار ہوا کرتے تھے
بے خبر ہو کے زمانے کے ہر اک کام سے ہم
تیرے بارے میں خبردار ہوا کرتے تھے
اب اسے پانے کی خواہش بھی نہیں ہے فیضانؔ
ہم کبھی جس کے طلب گار ہوا کرتے تھے