رات کٹی ہے روتے روتے
رات کٹی ہے روتے روتے غم کا بوجھا ڈھوتے ڈھوتے زخموں کی سوغات ملی ہے داغ پنہاں دھوتے دھوتے گھر پچھوارے کیسا غل ہے جاگ نہ جاؤں سوتے سوتے عہد جوانی بھاری پتھر تھک جاؤں گا ڈھوتے ڈھوتے یہ بھی وقت کا دھوکا سمجھو کوئی ہنسے جو روتے روتے
رات کٹی ہے روتے روتے غم کا بوجھا ڈھوتے ڈھوتے زخموں کی سوغات ملی ہے داغ پنہاں دھوتے دھوتے گھر پچھوارے کیسا غل ہے جاگ نہ جاؤں سوتے سوتے عہد جوانی بھاری پتھر تھک جاؤں گا ڈھوتے ڈھوتے یہ بھی وقت کا دھوکا سمجھو کوئی ہنسے جو روتے روتے
تم جو ہو پاس تو کمی کیا ہے تم نہ ہو تو یہ زندگی کیا ہے گردش وقت یہ تو بتلا دے پھول کیا چیز ہے کلی کیا ہے کوئی لمحہ رکے تو میں پوچھوں وقت کو ایسی بیکلی کیا ہے ایک سانسوں کے سلسلے کے سوا ہم غریبوں کی زندگی کیا ہے بند کمروں کے باسیوں سے نہ پوچھ صبح کیا شے ہے روشنی کیا ہے عقل مبہوت ...
ہم نے بوڑھوں سے یہ سنی ہے میاں بات وہ ہے جو ان کہی ہے میاں اپنی سانسیں بھی اپنے بس میں نہیں زندگی خاک زندگی ہے میاں جس کے تن پر لباس تک بھی نہیں وہ بھی کیا کوئی آدمی ہے میاں میرے الفاظ لکھ کے تم رکھ لو ابھی آواز دب رہی ہے میاں تم نہیں بولتے تو یوں ہی سہی ہم نے بھی چپ کی سادھ لی ہے ...
غم کی گر چاشنی نہیں ہوتی زندگی زندگی نہیں ہوتی روٹھ جانا تو خیر آساں ہے پر منانا ہنسی نہیں ہوتی ان کے پیچھے تو ہے انہیں کا ذکر سامنے بات بھی نہیں ہوتی دل لگا کر سمجھ میں آیا ہے یہ کوئی دل لگی نہیں ہوتی بے خودی سے جو ہم کنار نہیں وہ خودی آگہی نہیں ہوتی آہ جو عرش تک پہنچ نہ ...
سوچتا ہوں کدھر گئے ہم لوگ جی رہے ہیں کہ مر گئے ہم لوگ رات بھر ایک ایک جمع ہوئے پو پھٹے ہی بکھر گئے ہم لوگ اپنا گھر ڈھونڈنے کو کیا نکلے جانے کس کس کے گھر گئے ہم لوگ یہ مکاں شہر بھائی اور بہن ان حدوں سے گزر گئے ہم لوگ دل کہیں ہے تو دست و پا ہیں کہیں جسم تقسیم کر گئے ہم لوگ
دن تو جوں توں چلو گزر جائے نگھرا رات میں کدھر جائے یہ سڑک پر پڑا ہوا اک شخص اس کے سینے سے کار اتر جائے گھر سے پاؤں نکل گیا اس کا اب خدا جانے وہ کدھر جائے اس زمانے میں زندگی کے لئے سوچ بھی لے کوئی تو مر جائے رات کی فکر تو کروں لیکن سر سے یہ دھوپ تو اتر جائے آئنہ منہ چڑا رہا ہے ...
ڈوبا ہوا سا خون میں خاور دکھائی دے گویا سحر میں شام کا منظر دکھائی دے لوگو تمہارا شہر تو شیشے کا شہر ہے پھر بھی ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دے مدت سے میرے گاؤں کے چولھے بھی سرد ہیں لیکن اک آگ ہے کہ جو گھر گھر دکھائی دے یہ کیا کہ میرے فکر و عمل میں تضاد ہے مجھ کو تو کوئی میرے ہی ...
برسر روزگار تھے پہلے ہم بھی یاروں کے یار تھے پہلے آج یہ زیست ہم پہ بار سہی زیست پر ہم بھی بار تھے پہلے آج ہم وقت کو پکارتے ہیں وقت کی ہم پکار تھے پہلے آؤ اب ان کی چھاؤں بھی ڈھونڈیں جو شجر سایہ دار تھے پہلے گو کہ خوشیاں ہیں بے شمار مگر غم بہت خوش گوار تھے پہلے