غم کی گر چاشنی نہیں ہوتی
غم کی گر چاشنی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی
روٹھ جانا تو خیر آساں ہے
پر منانا ہنسی نہیں ہوتی
ان کے پیچھے تو ہے انہیں کا ذکر
سامنے بات بھی نہیں ہوتی
دل لگا کر سمجھ میں آیا ہے
یہ کوئی دل لگی نہیں ہوتی
بے خودی سے جو ہم کنار نہیں
وہ خودی آگہی نہیں ہوتی
آہ جو عرش تک پہنچ نہ سکے
دل سے نکلی ہوئی نہیں ہوتی
حسن کو عشق ہی نے دی ہے کشش
چاند میں روشنی نہیں ہوتی
برق بھی کوندتی تو ہے لیکن
ان کی انگڑائی سی نہیں ہوتی
پھول روتے ہیں ساری رات فہیمؔ
اوس کی یہ تری نہیں ہوتی