ڈوبا ہوا سا خون میں خاور دکھائی دے

ڈوبا ہوا سا خون میں خاور دکھائی دے
گویا سحر میں شام کا منظر دکھائی دے


لوگو تمہارا شہر تو شیشے کا شہر ہے
پھر بھی ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دے


مدت سے میرے گاؤں کے چولھے بھی سرد ہیں
لیکن اک آگ ہے کہ جو گھر گھر دکھائی دے


یہ کیا کہ میرے فکر و عمل میں تضاد ہے
مجھ کو تو کوئی میرے ہی اندر دکھائی دے


یہ راستہ نیا ہے ذرا غور تو کرو
شاید یہیں کہیں پہ مرا گھر دکھائی دے