دن تو جوں توں چلو گزر جائے

دن تو جوں توں چلو گزر جائے
نگھرا رات میں کدھر جائے


یہ سڑک پر پڑا ہوا اک شخص
اس کے سینے سے کار اتر جائے


گھر سے پاؤں نکل گیا اس کا
اب خدا جانے وہ کدھر جائے


اس زمانے میں زندگی کے لئے
سوچ بھی لے کوئی تو مر جائے


رات کی فکر تو کروں لیکن
سر سے یہ دھوپ تو اتر جائے


آئنہ منہ چڑا رہا ہے مجھے
خود کو جو دیکھ لے تو ڈر جائے


انتشار حیات اف جیسے
آئینہ ٹوٹ کر بکھر جائے