Ehsan Akbar

احسان اکبر

احسان اکبر کی نظم

    گریز

    مرے ہاتھوں میں سورج کی سواری کے سواگت کے لئے گجرے نہیں ہوتے سروں پر حکمراں مہر درخشاں اک قصیدہ میرے لب سے سن نہیں پایا جب ایسا ہے تو کیوں ندیا میں گرتے زرد لمحے کی دعا چاہوں میں اپنی رات کو کیوں چاند کی جھولی میں پھیلا دوں کہ رات آتی نظر آتی ہے جاتی کا پتا تک بھی نہیں چلتا سو حیرت ...

    مزید پڑھیے

    جہان خواب

    یہ رنگ و نکہت میں بہتی دنیا یہ حسن صورت یہ جلوہ گاہیں یہ بجلیوں سی لپک ادا کی یہ بدلیوں سی گداز بانہیں یہ نقش سے پھوٹتے کرشمے یہ نکہت و نور کی پناہیں اک آرزو کے ہزار پیکر اک التجا لاکھ بارگاہیں حیات کے سرفرازی چشمے نشہ پلاتی ہوئی نگاہیں جمال کا دل نشیں تصور خیال کی دل پذیر ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ ہی درد پہچانتی ہے

    آنکھ ہی درد پہچانتی ہے میں اس روٹ پر پہیلی گاڑی کا مہماں تھا بے طرح گھومتی گیند پر اب نفس جتنے انفاس کا اور مہمان ہے ان کی گنتی مری داستاں میں نہیں خاک کی ناف سے خاک کے بطن تک چند ساعات کی روشنی پوشیشیں بتیاں تازہ ماڈل کلب تازہ رخ گاڑی اور بان اور گل چہرہ انٹرپریٹر یہی چار آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    محور

    قدم مٹی پہ رکھتی ہو کہ عرش اوپر ٹھہرتے ہیں کہ جب تم پاؤں دھرتی ہو تو دھرتی کے جگر کی دھڑکنیں بھی آزماتی ہو بہاروں میں بکھرتیں تو تمہیں بس ڈھونڈتے پھرتے مگر تم رنگ و بو کو اپنا پس منظر بناتی ہو خوش دلی کے قہقہے کی نقرئی گھنٹی کے نغموں کی کھنک کے ساتھ سارے منظروں پر پھیل جاتی ہو وہ ...

    مزید پڑھیے

    آخری لیکچر

    یہ تم سب کہ جن کے سروں میں جوانی کا خوں لہلہاتا ہے مجھ سے رسید اپنی محنت کی بھی لیتے جاؤ محبت کے بارے میں جو بھی کسی نے بتایا ہے پوری حقیقت نہیں کیونکہ چاہت روایت نہیں تجربہ ہے حقیقت میں ہر آدمی محترم ہے وہ خود اس کی جب تک نہ تردید کر دے یہ پہلے بھی میں نے کہا تھا تمہارے لبوں سے جو ...

    مزید پڑھیے

    آزادی

    شہر لا مکاں سے ہوں جس میں اک مکاں میرا خواب سے ابھرتا ہے دودھیا سویرا سا دھیان میں نکھرتا ہے جو حدوں سے عاری ہے انتہا نہیں رکھتا چوکھٹیں دریچے در کیا گمان میں آئیں (صحن آنگن اور دیوار کا خیال ہی بے کار) چار سمت کی دیوار چاہے کتنی پھیلی ہو آپ کا احاطہ ہے آپ کا ہے گھیراؤ کیوں گرفت ...

    مزید پڑھیے

    بحران

    جدائی اور کیا ہے میں جسے سہتا نہیں رہتا یہ تم سے روز کا ملنا جدا ہونے سے پہلے دیر تک اک بات سے اک بات تک لفظوں کا لڑھکانا نئے موسم کی باتیں عالمانہ گفتگوئیں ان مناظر کی سیاست جن کا چہرہ کل دکھائے گی ملاقاتیں ہیں اور ایسی ملاقاتیں کہ باہم روز کا ملنا نہ ملنا کوئی بھی ارزش نہیں ...

    مزید پڑھیے

    امکان

    خزاں میں اب پھول آنے والے ہیں تم مگر ساتھ ساتھ رہنا کہ ہم صواب و خطا کے قصوں کا ذکر کرکے فضا کو پہلے ہی اتنا بوجھل بنا چکے ہیں کہ خشک پتا بھی گرنے لگ جائے تو ہوا سسکیاں سی لیتی ہے چیختی ہے اداس لمحوں میں روشنی اپنے ساتھ رکھنا تم اپنے ہاتھوں کی اوٹ کرکے چراغ لاؤ تو یاد رکھنا کہ ...

    مزید پڑھیے

    رات کی آنکھ میں نم

    سحر کے اگر ایسے لمحات میں جاگتے ہو ستارے بھی جب اونگھ جائیں اگر دودھیا چاندنی کے جواں جسم کی موت دیکھے ہوئے ہو اگر سوچ میں سر کھجاتے درختوں کی ویراں پر اسرار تنہائیوں بیچ پچھلے ستارے کی چھانو تلے گام دو گام سوئی ہوئی ساعتوں میں چلے ہو تو تم ہم سے ہو تم مگر تب کہاں تھے سدھارت نے جب ...

    مزید پڑھیے

    احوال

    ہمیں کیا چاندنی کی رات کیا راتوں کی تاریکی بس اتنا ہے کہ روشن رات میں گر تیز چلنا ہی ضروری ہو تو چل سکتے ہیں ورنہ چاندنی کی زرد چادر میں چھپے بھیدوں بھرے فتنے سفر کرنے نہیں دیتے اندھیرے میں ہمیں فتنوں کے سر پر پاؤں رکھ کر بڑھتے جانا دشت میں آسان رہتا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2