امکان
خزاں میں اب پھول آنے والے ہیں
تم مگر ساتھ ساتھ رہنا
کہ ہم صواب و خطا کے قصوں کا ذکر کرکے
فضا کو پہلے ہی اتنا بوجھل بنا چکے ہیں
کہ خشک پتا بھی گرنے لگ جائے تو ہوا سسکیاں سی لیتی ہے چیختی ہے
اداس لمحوں میں روشنی اپنے ساتھ رکھنا
تم اپنے ہاتھوں کی اوٹ کرکے
چراغ لاؤ
تو یاد رکھنا کہ روشنی سے دیوں کو بھرنا
کرم نہیں ہے
کسی پہ احسان تو نہیں ہے کہ ہم نے کرنیں بکھیر دی ہیں
کہ روشنی سب کی زندگی ہے
گلوں کی پسپائیوں کی راہوں کو روکنا ہو تو نور بانٹو
کہ روشنی نقد زندگی ہے
خزاں کے پھولوں سے تم نہ کہنا
گئی رتوں کی حلاوتیں کیا تھیں رنگ کیا تھا
رتوں کے زندہ سیاق
مردہ سباق سے
اپنا ربط کیا تھا
ہمیں رتوں کے مٹے نشانوں سے ڈھونڈھنا ہیں
وہ نام
جو یاد رہ گئے ہیں
نشان بے نام صورتوں کے
جو کل اگیں گی
چراغ پھولوں کے
ان ہواؤں میں
جلنا مشکل ہیں
جل گئے تو
اجالا جتنا بھی ہو بہت ہے