رات کی آنکھ میں نم
سحر کے اگر ایسے لمحات میں جاگتے ہو
ستارے بھی جب اونگھ جائیں
اگر دودھیا چاندنی کے جواں جسم کی موت دیکھے ہوئے ہو
اگر سوچ میں سر کھجاتے درختوں کی
ویراں پر اسرار تنہائیوں بیچ
پچھلے ستارے کی چھانو تلے
گام دو گام
سوئی ہوئی ساعتوں میں
چلے ہو
تو تم ہم سے ہو
تم مگر تب کہاں تھے
سدھارت نے جب آخری رات میں
دو ستاروں کے ماتھوں پہ بوسہ دیا
اور آفاق میں کھو گیا
دور صدیوں کی پہنائی پر
میں جو حیراں کھڑا دیکھتا تھا
اکیلا کئی قرن روتا رہا ہوں