Ehsan Akbar

احسان اکبر

احسان اکبر کی نظم

    ہوا سے بات کرو

    ہوا سے بات کرو کہو کہ اس کی لگائی ہوئی گرہ نہ کھلی وہ دھول تھم نہ سکی دل کے رخ جو اڑتی تھی وہ گرد اٹھی نہیں جو آئنوں پہ بیٹھی تھی صبا سے بات کرو صبا سے بات کرو کیا سوال تھا اس کا وصال جس کا تعین نہ تھا جدائی سے کسے پکار گیا صدا سے بات کرو یہی کہ جن کو سر دشت و بر پکارا گیا وہ سر ...

    مزید پڑھیے

    بے تعبیر

    بچپنے کی دنیا تھی جس کے دم سے دم لیتی خوف کی پچھل پائی خواب جس کی زد میں تھے صبح خواب سننے پر سب بزرگ کہہ دیتے خواب کی یہ باتیں ہیں ہم سے دور بیتیں گی دور سے سنیں گے ہم اب جدا سی دنیا ہے ان کہے زمانوں کے جیتے جاگتے لمحے دھیان سے گزرتے ہیں سوچ میں اترتے ہیں پر وہ دن نہیں آئے جس میں ...

    مزید پڑھیے

    ہوا مری رازداں نہیں ہے

    ہوا مری رازداں نہیں ہے کہ چتر اس کا ہزار سایوں پہ مہرباں ہے کروڑوں لوگوں کے سوز انفاس کا دھواں ہے ہوا فقط اس نحیف لمحے کی داستاں ہے کہ جس کا عالم گزشتنی ہے جو اک نفس کا ہی میہماں ہے ہوا ہی ساری مہک اگلتی ہوئی بہاروں کی ترجماں ہے ہمارے اندر چھپے وجودوں سبک مساموں کی رازداں ہے گزرتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2