Ehsan Akbar

احسان اکبر

احسان اکبر کی غزل

    کلاہ کج بدل جاتی ہے یا افسر بدلتا ہے

    کلاہ کج بدل جاتی ہے یا افسر بدلتا ہے ابھی کھلتا نہیں کیا وقت کا تیور بدلتا ہے یہ دیکھا ہے کہ محور استوا اوپر بدلتا ہے فلک صدیوں پرانی نیلگوں چادر بدلتا ہے دلوں میں سوز غم والے دھوئیں بھی آرزوئیں بھی عجم والا مسلماں ہر صدی میں گھر بدلتا ہے نشاں کردہ گھروں کو چھوڑ بھاگے گھر جو ...

    مزید پڑھیے

    خبر نہیں کہ کوئی کس کے انتخاب میں ہے

    خبر نہیں کہ کوئی کس کے انتخاب میں ہے مگر جو شخص کل ابھرے گا میرے خواب میں ہے جہان والوں کے لاکھوں ادھر ادھر کے جواب حیات کا تو سوال آدمی کے باب میں ہے ہمیں نہ گھیرتی شاید یہ چار دیواری مگر یہ خاک جو اس عالم خراب میں ہے خود اپنے پر جو گئے ہیں وہ طفل کون سے ہیں وہ نسل کیسی ہے جس کا ...

    مزید پڑھیے

    پھر مجھے کون و مکاں دشت و بیاباں سے لگے

    پھر مجھے کون و مکاں دشت و بیاباں سے لگے روبرو کون تھا جو آئینے حیراں سے لگے کچھ تھی کم حوصلگی اپنی تھی کچھ بے صبری کچھ مجھے عشق کے ہنگامے بھی آساں سے لگے وقت کٹتا رہا تھا عہد حضوری کی فراق زخم لگتے رہے چاہے کسی عنواں سے لگے زیست ہم ہار کے بھی ہاتھ ملائیں تجھ سے اپنے یہ حوصلے ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ آئنہ کیوں کر دیکھے

    آئنہ آئنہ کیوں کر دیکھے اپنے ہی داغ نظر بھر دیکھے تم نے جلوے کو بھی چھونا چاہا ہم نے خوشبو میں بھی پیکر دیکھے آپ انساں ہوا صورت کا اسیر شیشہ ٹوٹے تو سکندر دیکھے ہم نے آواز لگائی سر طور روپ جب شوق سے کمتر دیکھے جلوۂ طور بجا تھا لیکن آنکھ مشتاق تھی پیکر دیکھے درد کو خوف بکھر ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے اپنی خبر ہم وصول کیا کرتے

    کسی سے اپنی خبر ہم وصول کیا کرتے خود آئینوں کا بھی احساں قبول کیا کرتے وہ کھیت کھیت رہیں جن کی خار دار صفیں انہی میں پھول تھے دو چار پھول کیا کرتے تمام جانوں کے دشمن تمام ہاتھ ہوئے یہ امتیں تھیں اب ان کے رسول کیا کرتے یہ کوئی عمر تھی تیری محبتوں والی سروں کی راکھ میں شامل یہ ...

    مزید پڑھیے

    پھر مجھے کون و مکاں دشت و بیاباں سے لگے

    پھر مجھے کون و مکاں دشت و بیاباں سے لگے خود کو دیکھا ہے تو آئینے پریشاں سے لگے وقت کٹتا رہا تھا عہد حضوری کہ فراق زخم لگتے رہے چاہے کسی عنواں سے لگے زندگی میرے اضافے مجھے واپس کر دے جھاڑ دے خار جو ناحق ترے داماں سے لگے کچھ تو تھی سادگی کچھ بے خبری بے ہنری کچھ ہمیں عشق کے ہنگامے ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک گام پہ حد ہر قدم در و دیوار

    ہر ایک گام پہ حد ہر قدم در و دیوار فضائے شہر بنی بیش و کم در و دیوار یہی تھے صحن فضا اور یہی گھر آنگن تھا تم آئے ہو تو ہوئے محتشم در و دیوار ہم اپنے درد ہواؤں سے بھی نہیں کہتے اٹھائے پھرتے ہیں خود اپنے غم در و دیوار یہ ریگ زار ہے اور اس کی اپنی دنیا ہے یہاں ہمیشہ رہے کم سے کم در و ...

    مزید پڑھیے

    ہوش میں آؤں تو سوچوں ابھی دیکھا کیا ہے

    ہوش میں آؤں تو سوچوں ابھی دیکھا کیا ہے پھر یہ پوچھوں کہ یہ پردا ہے تو جلوہ کیا ہے دونوں آنکھوں میں ہے اک جلوہ تو دو آنکھیں کیوں پتلیوں کا یہ تماشا سا وگر نہ کیا ہے تو نے پہچان لئے اپنی خدائی کے نقوش آئینہ جس نے تعارف یہ کرایا کیا ہے زندگی بھر پڑھی تقدیر کی خفیہ تحریر لوح مرقد سے ...

    مزید پڑھیے