Daniyal Tareer

دانیال طریر

پاکستان کے ممتاز ترین نوجوان شاعر، بہت کم عمر میں ایک مہلک بیماری کا شکار ہو کر وفات پائی

One of the prominent young poets from Pakistan; died early of a deadly disease

دانیال طریر کی غزل

    مٹی تھا اور دودھ میں گوندھا گیا مجھے

    مٹی تھا اور دودھ میں گوندھا گیا مجھے اک چاند کے وجود میں گوندھا گیا مجھے میں نیست اور نبود کی اک کیفیت میں تھا جب وہم ہست و بود میں گوندھا گیا مجھے میں چشم کم رسا سے جسے دیکھتا نہ تھا اس خواب لا حدود میں گوندھا گیا مجھے خس خانہ زیاں کی شرر باریوں کے بعد یخ زار نار سود میں گوندھا ...

    مزید پڑھیے

    شہر سے کیا گئی جانب دشت زر زندگی فاختہ

    شہر سے کیا گئی جانب دشت زر زندگی فاختہ بین کرنے لگی آ کے شام و سحر ماتمی فاختہ مر گیا رات کو برف اوڑھے ہوئے ایک فٹ پاتھ پر وہ جو کہتا رہا لفظ وہ عمر بھر شانتی فاختہ کیسی کیسی ہوائیں چلیں باغ میں کون آیا گیا ساری تبدیلیوں سے رہی بے خبر باوری فاختہ وہ نگر چاند کا ہے وہاں تیری ...

    مزید پڑھیے

    ریت مٹھی میں بھری پانی سے آغاز کیا

    ریت مٹھی میں بھری پانی سے آغاز کیا سخت مشکل میں تھا آسانی سے آغاز کیا مجھ کو مٹی سے بدن بنتے ہوئے عمر لگی میری تعمیر نے ویرانی سے آغاز کیا یہ جہانوں کا زمانوں کا مکانوں کا سفر غیب نے لفظ سے یا معنی سے آغاز کیا جب بھی یہ آنکھ عناصر کی طرف دیکھتی ہے یاد آتا ہے پریشانی سے آغاز ...

    مزید پڑھیے

    خواب جزیرہ بن سکتے تھے نہیں بنے

    خواب جزیرہ بن سکتے تھے نہیں بنے ہم بھی قصہ بن سکتے تھے نہیں بنے کرنیں برف زمینوں تک پہنچانے کو بادل شیشہ بن سکتے تھے نہیں بنے قطرہ قطرہ بہتے رہے بے مایہ رہے آنسو دریا بن سکتے تھے نہیں بنے اپنا گھر بھی ڈھونڈ نہ پاتے کھو جاتے جگنو اندھیرا بن سکتے تھے نہیں بنے ہم دو چار محبت ...

    مزید پڑھیے

    خواب کاری وہی کمخواب وہی ہے کہ نہیں

    خواب کاری وہی کمخواب وہی ہے کہ نہیں شعر کا حسن ابد تاب وہی ہے کہ نہیں کیا پری کو مجھے مچھلی میں بدلنا ہوگا دیکھنے کے لیے تالاب وہی ہے کہ نہیں میں جہاں آیا تھا پیڑوں کی تلاوت کرنے سامنے قریۂ شاداب وہی ہے کہ نہیں آنکھ کو نیند میں معلوم نہیں ہو سکتا رات وہ ہے کہ نہیں خواب وہی ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ساکت ہو مگر سب کو روانی نظر آئے

    ساکت ہو مگر سب کو روانی نظر آئے اس ریت کے صدقے کہ جو پانی نظر آئے میں سبز پرندے کی طرح شہر سے جاؤں پیڑوں کو مری نقل مکانی نظر آئے تالاب مرے خواب کے پانی سے بھرا ہو اور اس میں پڑا چاند کہانی نظر آئے یہ آنکھ یہ لو کتنے زماں دیکھ چکی ہے جس چیز کو دیکھوں وہ پرانی نظر آئے کیا کیا نہ ...

    مزید پڑھیے

    آگ میں جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے

    آگ میں جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے آسماں گلتے ہوئے دیکھا گیا ہے ایک بے چہرہ مسافر رنگ اوڑھے دھند میں چلتے ہوئے دیکھا گیا ہے مٹھیاں بھر کر اسے تاریکیوں سے شکل پر ملتے ہوئے دیکھا گیا ہے گھر میں بھی ہوں اور مجھ کو دشت میں بھی دھوپ میں جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے چودھویں کے چاند میں اس کا ...

    مزید پڑھیے

    نئی نئی صورتیں بدن پر اجالتا ہوں

    نئی نئی صورتیں بدن پر اجالتا ہوں لہو سے کیسے عجیب منظر نکالتا ہوں وہ دل میں اتریں تو ایک ہو جائیں روشنی دیں دھنک کے رنگوں کو اپنی آنکھوں میں ڈالتا ہوں زمین تلووں سے آ چمٹتی ہے آگ بن کر ہتھیلیوں پر جب آسماں کو سنبھالتا ہوں ہوا میں تھوڑا سا رنگ اترے سو اس لیے میں گلاب کی پتیاں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی سوائے بدن ہے نہ ہے ورائے بدن

    کوئی سوائے بدن ہے نہ ہے ورائے بدن بدن میں گونج رہی ہے ابھی صدائے بدن عجب ہے شہر مگر شہر سے بھی لوگ عجب ادھار مانگ رہے ہیں بدن برائے بدن جہاں ٹھٹھرتی تمنا کو آگ تک نہ ملے وہاں پہ کون ٹھہرتا ہے اے سرائے بدن کہیں چمکتی ہوئی ریت بھی دکھائی نہ دی کہاں گیا وہ سمندر سراب کھائے ...

    مزید پڑھیے

    تسلسل سے گماں لکھا گیا ہے

    تسلسل سے گماں لکھا گیا ہے یقیں تو ناگہاں لکھا گیا ہے مکمل ہو چکی قرأت فضا کی پرندے اور دھواں لکھا گیا ہے مرا دو پل ٹھہر کر سانس لینا سر آب رواں لکھا گیا ہے اگائے گی ستارے اب یہ مٹی زمیں پر آسماں لکھا گیا ہے کتاب غیب پڑھتا جا رہا ہوں مرا ہونا کہاں لکھا گیا ہے نہیں لکھا گیا کاغذ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3