مٹی تھا اور دودھ میں گوندھا گیا مجھے
مٹی تھا اور دودھ میں گوندھا گیا مجھے
اک چاند کے وجود میں گوندھا گیا مجھے
میں نیست اور نبود کی اک کیفیت میں تھا
جب وہم ہست و بود میں گوندھا گیا مجھے
میں چشم کم رسا سے جسے دیکھتا نہ تھا
اس خواب لا حدود میں گوندھا گیا مجھے
خس خانہ زیاں کی شرر باریوں کے بعد
یخ زار نار سود میں گوندھا گیا مجھے
اک دست غیب نے مجھے لا چاک پر دھرا
پھر وقت کے جمود میں گوندھا گیا مجھے
اس میں تو آسماں کے شجر بھی ثمر نہ دیں
جس خاک بے نمود میں گوندھا گیا مجھے
قوس قزح کی سمت بہت دیکھتا تھا میں
آخر غبار و دود میں گوندھا گیا مجھے