کوئی سوائے بدن ہے نہ ہے ورائے بدن

کوئی سوائے بدن ہے نہ ہے ورائے بدن
بدن میں گونج رہی ہے ابھی صدائے بدن


عجب ہے شہر مگر شہر سے بھی لوگ عجب
ادھار مانگ رہے ہیں بدن برائے بدن


جہاں ٹھٹھرتی تمنا کو آگ تک نہ ملے
وہاں پہ کون ٹھہرتا ہے اے سرائے بدن


کہیں چمکتی ہوئی ریت بھی دکھائی نہ دی
کہاں گیا وہ سمندر سراب کھائے بدن


چراغ بن کے چمکتے ہیں روز شام ڈھلے
ہمارے پہلو میں سوئے ہوئے پرائے بدن


ہر ایک راہ میں بکھرے پڑے ہیں برگ نفس
یہاں چلی ہے بہت دن تلک ہوائے بدن


وہ اپنی قوس قزح لے گیا تو کیا ہوگا
طریرؔ غور طلب ہے تری فضائے بدن