میں جب بھی گاؤں اپنے لوٹتا ہوں
میں جب بھی گاؤں اپنے لوٹتا ہوں کسی کی روح تشنہ دیکھتا ہوں کئی چہرے شناسا اس گلی کے کسے آواز دوں یہ سوچتا ہوں اتر آتا ہے خوں آنکھوں میں اب بھی گئے موسم میں جب بھی جھانکتا ہوں رکھو بشاش چاہے خود کو جتنا تمہاری بے سکونی جانتا ہوں کنارے لگ چکی ہے سب کی کشتی اکیلا میں ابھرتا ڈوبتا ...