رت بدلتی ہے بدلتا نہیں منظر سائیں

رت بدلتی ہے بدلتا نہیں منظر سائیں
اب کہاں جائے بتا تیرا قلندر سائیں


اک مرے نام نہیں تیری سخاوت ورنہ
جگمگاتا ہے کرشمہ ترا در در سائیں


شہر کا شہر ہوا جاتا ہے کیسے سیراب
کون آیا ہے یہاں لے کے سمندر سائیں


اب تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ منزل ہے قریب
راستہ ایسا نہیں ہوتا منور سائیں


کوئی کچھ بھی نہ کہے شہر عداوت ہی سہی
ہم تو آباد ہوئے ہیں یہاں لٹ کر سائیں


شاعری جس کے لئے کی وہ سرا ہے تو ہے بات
لاکھ دنیا مجھے کہتی ہے سخنور سائیں


پھر کسی روز تمنا کے قدم چوموں گا
آج تو جانے دیا جائے مجھے گھر سائیں


کربلا ہے تو یہاں سر کی بھی قیمت ہوگی
کچھ تو انعام رہے گا مرے سر پر سائیں