ادھورا خواب
شہر کیسے یہ اجنبی ٹھہرا
کیسے پہچان کھو گئی میری
اب کوئی جانتا نہیں مجھ کو
سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں
سہمے سہمے سے ہیں در و دیوار
کھڑکیاں دیکھ کر تعجب سے
گفتگو کر رہی ہیں آپس میں
کون آیا ہے ملنے برسوں بعد
کہہ رہی ہے یہ مجھ سے کیا انگنائی
پوچھتی ہے کہاں سے آئے ہو
کچھ بتاؤ تو کس سے ملنا ہے
سوچتا ہوں کہوں میں کیا اس سے
میری باتوں کو کب یہ مانے گی
میرے قصوں کو جھوٹ جانے گی
جس سے ملنا تھا وہ نظر ہی نہیں
ہائے اب کوئی منتظر ہی نہیں
ذہن یہ سوچنے پہ ہے مجبور
واقعی دیر ہو گئی ہے کیا
راستے میں کہیں رکا ہی نہیں
دیر کیسے ہوئی پھر آنے میں