کچھ ایسا ہوا بے سر و سامان مری جاں
کچھ ایسا ہوا بے سر و سامان مری جاں
دنیا مجھے کہنے لگی نادان مری جاں
شعلوں کو میسر کہاں شبنم کی رفاقت
خود کو نہ کرو ایسے بھی ہلکان مری جاں
تنہائی میں اب ان کا بھی دم گھٹنے لگا ہے
ہجرت کو سمجھتے تھے جو آسان مری جاں
اب تیری عنایت ہو کہ دنیا کی نوازش
دل ہو تو گیا ویسے یہ ویران مری جاں
نادان ہے تو اور یہ سیہ کار زمانہ
اس دور کے انسان کو پہچان مری جاں
دل چاہتا یہ ہے کہ تجھے دور سے دیکھوں
لیکن جو تقاضے کا ہے طوفان مری جاں
دیکھا تھا فقیروں کی قبا میں اسے کل تک
سب لوگ جسے کہتے ہیں سلطان مری جاں