ماں

اب بھی جب
گردش ایام سے
گھبراتا ہوں
بھاگا بھاگا
ترے کمرے میں
چلا آتا ہوں
سر جھکا کر
تری تصویر کے آگے
چپ چاپ
پہروں بیٹھا ہوا
بچے کی طرح
جانے کیا
سوچتا رہتا ہوں
پھر ایسا گماں ہوتا ہے
ہاتھ شفقت سے
کسی نے مرے سر پر رکھا
دیکھتا ہوں تو خوشی
چہرے پہ چھا جاتی ہے
ماں مرے واسطے
جنت سے چلی آتی ہے