Basir Sultan Kazmi

باصر سلطان کاظمی

جدید شا عر و ناصر کاظمی کے صاحبزادے

Modern Urdu poet & son of well known poet Nasir Kazmi

باصر سلطان کاظمی کی غزل

    رہتا ہے اتنا پاؤں کے تل کا اثر سوار

    رہتا ہے اتنا پاؤں کے تل کا اثر سوار سر پر ہے گھر پہنچتے ہی اگلا سفر سوار میں چیختا رہا کہ نہیں خط یہ میرے نام لیکن ہوا کے گھوڑے پہ تھا نامہ بر سوار ملتا نہیں ہے دشت نوردی میں اب وہ لطف رہنے لگا ہے ذہن پہ گھر اس قدر سوار کس چیز کی نہ جانے ضرورت کہاں پڑے کر لوں نہ اپنے ساتھ سواری ...

    مزید پڑھیے

    گو کہ پیچھے بہت قطار میں تھے

    گو کہ پیچھے بہت قطار میں تھے کسی گنتی کسی شمار میں تھے سو بلاؤں سے ہم رہے محفوظ اک پر اسرار سے حصار میں تھے خوش ہوا ہوں غموں سے مل کے یوں جیسے یہ میرے انتظار میں تھے تین میں ہیں نہ اب وہ تیرہ میں جو کبھی پہلے تین چار میں تھے اب وہ سارے خزاں میں ہیں باصرؔ رنگ جتنے کبھی بہار میں ...

    مزید پڑھیے

    کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں

    کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں باصرؔ خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مری ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں تو چاہتا ہے اپنی نئی خوبیوں کی داد مجھ کو عزیز تیری پرانی خرابیاں جوں ہی تعلقات کسی سے ہوئے خراب سارے جہاں کی اس میں ملیں گی خرابیاں سرکار ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے ساتھ زمانہ کیا کرے کچھ بھی

    ہمارے ساتھ زمانہ کیا کرے کچھ بھی ذرا ملال نہ ہو تو نہ گر کہے کچھ بھی وہ اور وقت تھے جب انتخاب ممکن تھا کریں گے اہل ہنر کام اب ملے کچھ بھی نہیں ہے وقت مرے پاس ہر کسی کے لیے مری بلا سے وہ ہوتے ہوں آپ کے کچھ بھی جو میرا حق ہے مجھے وہ تو دیجیے صاحب طلب کیا نہیں میں نے جناب سے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    کرنا ہے گر مجھے شکار لا کوئی جال مختلف

    کرنا ہے گر مجھے شکار لا کوئی جال مختلف شاطر ہے تو اگر تو اب چل کوئی چال مختلف تیرے یہ سارے شعبدے میرے لیے نہیں نئے کر کے دکھا کبھی مجھے کوئی کمال مختلف لگتے ہیں یہ جو کامیاب ہیں جیسے آب پر حباب پیش نگہ انہیں نہ رکھ ڈھونڈ مثال مختلف جن کو ملیں بلندیاں دیکھیں انہوں نے ...

    مزید پڑھیے

    چشم نم سے دیکھتا ہے کیوں مری چشم پر آب

    چشم نم سے دیکھتا ہے کیوں مری چشم پر آب تیرے دل کی برف نے دیکھا نہیں ہے آفتاب یوں گزرتی جا رہی ہے زندگی کی دوپہر دل میں اک امید کاذب اور آنکھوں میں سراب خود سری اس تند خو کی جاتے جاتے جائے گی ایک ہی دن میں کبھی آتا نہیں ہے انقلاب تم نے ہم کو کیا دیا اور ہم سے تم کو کیا ملا مل گئی ...

    مزید پڑھیے

    بادل ہے اور پھول کھلے ہیں سبھی طرف

    بادل ہے اور پھول کھلے ہیں سبھی طرف کہتا ہے دل کہ آج نکل جا کسی طرف تیور بہت خراب تھے سنتے ہیں کل ترے اچھا ہوا کہ ہم نے نہ دیکھا تری طرف جب بھی ملے ہم ان سے انہوں نے یہی کہا بس آج آنے والے تھے ہم آپ کی طرف اے دل یہ دھڑکنیں تری معمول کی نہیں لگتا ہے آ رہا ہے وہ فتنہ اسی طرف خوش تھا ...

    مزید پڑھیے

    دم صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے

    دم صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے نئے ساتھیوں کی دھن میں تری دوستی کو چھوڑا کوئی تجھ سا بھی نہ پایا ترے شہر سے نکل کے وہی رسم کم نگاہی وہی رات کی سیاہی مرے شہر کے چراغو یہاں کیا کرو گے جل کے نئے خواب میری منزل تہہ آب میرا ساحل تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    کہاں سیاست اغیار نے ہلاک کیا

    کہاں سیاست اغیار نے ہلاک کیا ہمیں تو اپنے ہی افکار نے ہلاک کیا کسی کی موت کا باعث تھی خانہ ویرانی کسی کو رونق گلزار نے ہلاک کیا کسی کے واسطے پھولوں کی سیج موجب مرگ کسی کو جادۂ‌ پر خار نے ہلاک کیا کسی کو شعلۂ خورشید نے جلا ڈالا کسی کو سایۂ اشجار نے ہلاک کیا سواد شام کسی کے لئے ...

    مزید پڑھیے

    ہم الگ بیٹھ رہے چپ ہو کر

    ہم الگ بیٹھ رہے چپ ہو کر اب ترے جی میں جو آئے سو کر اب تجھے کھو کے خیال آتا ہے تجھ کو پایا تھا بہت کچھ کھو کر کیا برا ہے مجھے اچھا ہونا کوئی تدبیر اگر ہے تو کر تم نے کیا کر لیا رہ کر بیدار ہم نے تو عمر گنوا دی سو کر آج تک تم نہیں سنبھلے باصرؔ کھائی تھی کس کی گلی میں ٹھوکر

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5