رہتا ہے اتنا پاؤں کے تل کا اثر سوار
رہتا ہے اتنا پاؤں کے تل کا اثر سوار
سر پر ہے گھر پہنچتے ہی اگلا سفر سوار
میں چیختا رہا کہ نہیں خط یہ میرے نام
لیکن ہوا کے گھوڑے پہ تھا نامہ بر سوار
ملتا نہیں ہے دشت نوردی میں اب وہ لطف
رہنے لگا ہے ذہن پہ گھر اس قدر سوار
کس چیز کی نہ جانے ضرورت کہاں پڑے
کر لوں نہ اپنے ساتھ سواری میں گھر سوار
راکب کو ایک بار گرا دے جو رخش عمر
ممکن نہیں وہ اس پہ ہو بار دگر سوار
یہ عشق کا نشہ تو اترتا نہیں کبھی
باصرؔ یوں ہی رہے گا یہ اعصاب پر سوار