Basir Sultan Kazmi

باصر سلطان کاظمی

جدید شا عر و ناصر کاظمی کے صاحبزادے

Modern Urdu poet & son of well known poet Nasir Kazmi

باصر سلطان کاظمی کی غزل

    اعمال کج کریں گے تعاقب قبور تک

    اعمال کج کریں گے تعاقب قبور تک پیچھا نہ اس کے بعد بھی چھوڑیں گے دور تک کچھ اور جاگ لینے دے اے شام زندگی سونا ہے اس کے بعد تو صبح نشور تک اپنا وہی سوال تھا اس کا وہی جواب کیا کیا نہ کوہ دیکھے ہمالہ سے طور تک گزرے گا کیسے کیسے مدارج سے کیا خبر لمبا سفر ہے خاک کے ذرے کا نور تک غافل ...

    مزید پڑھیے

    کرتے نہ ہم جو اہل وطن اپنا گھر خراب

    کرتے نہ ہم جو اہل وطن اپنا گھر خراب ہوتے نہ یوں ہمارے جواں در بدر خراب اعمال کو پرکھتی ہے دنیا مآل سے اچھا نہ ہو ثمر تو ہے گویا شجر خراب اک بار جو اتر گیا پٹری سے دوستو دیکھا یہی کہ پھر وہ ہوا عمر بھر خراب منزل تو اک طرف رہی اتنا ضرور ہے اک دوسرے کا ہم نے کیا ہے سفر خراب ہوتی ...

    مزید پڑھیے

    جب سے ہم رکھنے لگے ہیں کام اپنے کام سے

    جب سے ہم رکھنے لگے ہیں کام اپنے کام سے وہ ادھر آرام سے ہیں ہم ادھر آرام سے یہ بھی کٹ جائے گی جو تھوڑی بہت باقی ہے عمر ہم یہی کرتے رہیں گے کام اپنے عام سے اس در انصاف کے درباں بھی ہیں منصف بہت ہم جوں ہی فریاد سے باز آئے وہ دشنام سے عاشقی میں لطف تو سارا تجسس کی ہے دین کر دیا آغاز ...

    مزید پڑھیے

    ایک دروازہ کیا کھلا باہر

    ایک دروازہ کیا کھلا باہر گھر کا ہر فرد چل دیا باہر دیکھ یخ بستہ ہے ہوا باہر اس طرح ایک دم نہ جا باہر چل دئے یوں صنم کدے سے ہم جیسے مل جائے گا خدا باہر ایک تجھ سے رہے ہمیشہ دور ورنہ کیا کچھ نہیں ملا باہر گھر میں آ کر سکوں ملا باصرؔ کس قدر تیز تھی ہوا باہر

    مزید پڑھیے

    کیا کیا وہ ہمیں سنا گیا ہے

    کیا کیا وہ ہمیں سنا گیا ہے رہ رہ کے خیال آ رہا ہے اک بات نہ کہہ کے آج کوئی باتوں میں ہمیں ہرا گیا ہے تم خوش نہیں ہو گے ہم سے مل کے آ جائیں گے ہم ہمارا کیا ہے ہم لاکھ جواز ڈھونڈتے ہوں جو کام برا ہے وہ برا ہے کیا فائدہ فائدے کا یارو نقصان میں کیا مضائقہ ہے تم ٹھیک ہی کہہ رہے تھے اس ...

    مزید پڑھیے

    ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا

    ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سر بھی گئے تو کیا اٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عمر ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا ہیں کون سے بہار کے دن اپنے منتظر یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا اک مکر ہی تھا آپ کا ایفائے عہد بھی اپنے کہے سے آج مکر ...

    مزید پڑھیے

    اس کے لیے کچھ بھی کرو انجام شکایت

    اس کے لیے کچھ بھی کرو انجام شکایت لگتا ہے کہ اس کا تو ہے بس کام شکایت جو کچھ اسے درکار ہے وہ سب ہے میسر کس بات کی کرتا ہے وہ گلفام شکایت گلشن کی فضا میں بھی ہم آزاد کہاں تھے صیاد سے کرتے جو تہ دام شکایت ہم نے ہی نہ خود کو کیا تیرے لیے تیار تجھ سے نہیں کچھ گردش ایام شکایت ہر شخص کی ...

    مزید پڑھیے

    زیاں جگر کا سہی یہ جو شغل بادہ ہے

    زیاں جگر کا سہی یہ جو شغل بادہ ہے دل و نظر کے لیے اس میں کچھ افادہ ہے دکھائی دی ہے جھلک اس کی ایک مدت بعد یہ خواب میرے لئے خواب سے زیادہ ہے ملائے گا یہ کسی شاہراہ سے مجھ کو مٹا مٹا سا جو قدموں میں میرے جادہ ہے یہی بچائے گا تم دیکھنا مری بازی بساط پر جو یہ ناچیز سا پیادہ ہے یہ سوچ ...

    مزید پڑھیے

    موجب رنگ چمن خون شہیداں نکلا

    موجب رنگ چمن خون شہیداں نکلا موت کی جیب سے بھی زیست کا ساماں نکلا ٹھوکریں کھائی ہیں اتنی کہ اب اپنے دل سے شوق آوارگیٔ دشت و بیاباں نکلا ہم بہت خوش تھے کہ جاگ اٹھی ہے اپنی قسمت آنے والا کسی ہمسائے کا مہماں نکلا ہے عجب بات کہ جس رستے پہ ہم چل نکلے گھوم پھر کر وہ سر کوچۂ جاناں ...

    مزید پڑھیے

    ہم کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گئے

    ہم کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گئے اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے آزاد ہو کے جوں ہی کھلے میرے بال و پر مجھ پر کھلا کہ پاؤں تہ دام رہ گئے میں دے سکا نہ ان کو کسی تجربے کی آنچ افسوس کچھ خیال مرے خام رہ گئے کرتی رہی زباں مری بے دست و پا مجھے باتوں میں عمر بیت گئی کام رہ گئے میں راہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5