کرنا ہے گر مجھے شکار لا کوئی جال مختلف

کرنا ہے گر مجھے شکار لا کوئی جال مختلف
شاطر ہے تو اگر تو اب چل کوئی چال مختلف


تیرے یہ سارے شعبدے میرے لیے نہیں نئے
کر کے دکھا کبھی مجھے کوئی کمال مختلف


لگتے ہیں یہ جو کامیاب ہیں جیسے آب پر حباب
پیش نگہ انہیں نہ رکھ ڈھونڈ مثال مختلف


جن کو ملیں بلندیاں دیکھیں انہوں نے پستیاں
ہوتی ہے ہر دفعہ مگر وجہ زوال مختلف


تو نے کہی سنی سنائی مجھ سے سنی سنائی سن
چاہے اگر نئے جواب پوچھ سوال مختلف


میری بہار اور خزاں میرے لہو میں ہے نہاں
مریخ و ارض سے مرے ہیں ماہ و سال مختلف


ایسی چلی دم سحر شام تلک کیا نہال
باد صبا سے تھی بہت موج خیال مختلف