دم صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے
دم صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے
وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے
نئے ساتھیوں کی دھن میں تری دوستی کو چھوڑا
کوئی تجھ سا بھی نہ پایا ترے شہر سے نکل کے
وہی رسم کم نگاہی وہی رات کی سیاہی
مرے شہر کے چراغو یہاں کیا کرو گے جل کے
نئے خواب میری منزل تہہ آب میرا ساحل
تمہیں کیا ملے گا یارو مرے ساتھ ساتھ چل کے
سر شام آج کوئی مرے دل سے کہہ رہا ہے
کوئی چاند بھی تو نکلے کوئی جام بھی تو چھلکے
یہ جو گھر لٹا لٹا ہے یہ جو دل بجھا بجھا ہے
اسی دل میں رہ گئے ہیں کئی آفتاب ڈھل کے
یہ مشاہدہ ہے میرا رہ زندگی میں باصرؔ
وہی منہ کے بل گرا ہے جو چلا سنبھل سنبھل کے