ہم کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گئے
ہم کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گئے
اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے
آزاد ہو کے جوں ہی کھلے میرے بال و پر
مجھ پر کھلا کہ پاؤں تہ دام رہ گئے
میں دے سکا نہ ان کو کسی تجربے کی آنچ
افسوس کچھ خیال مرے خام رہ گئے
کرتی رہی زباں مری بے دست و پا مجھے
باتوں میں عمر بیت گئی کام رہ گئے
میں راہ دیکھتا رہا یاروں کی صبح تک
باصرؔ بھرے بھرائے مرے جام رہ گئے