اس کے لیے کچھ بھی کرو انجام شکایت

اس کے لیے کچھ بھی کرو انجام شکایت
لگتا ہے کہ اس کا تو ہے بس کام شکایت


جو کچھ اسے درکار ہے وہ سب ہے میسر
کس بات کی کرتا ہے وہ گلفام شکایت


گلشن کی فضا میں بھی ہم آزاد کہاں تھے
صیاد سے کرتے جو تہ دام شکایت


ہم نے ہی نہ خود کو کیا تیرے لیے تیار
تجھ سے نہیں کچھ گردش ایام شکایت


ہر شخص کی کرتا ہے شکایت جو تو اے شیخ
ایسا نہ ہو پڑ جائے ترا نام شکایت


موقع ہی نہ پایہ کبھی تنہائی میں ورنہ
کرتے نہ کبھی تجھ سے سر عام شکایت


ہم فرش نشیں خوش ہیں اسی بات پہ باصرؔ
پہنچی تو کسی طور لب بام شکایت