Atif tauqeer

عاطف توقیر

عاطف توقیر کی نظم

    ریپ

    میں اپنے اندر کسی خلا میں بھٹک رہی تھی ادھڑ رہی تھی مگر وہاں صرف اک بدن تھا جو ناخنوں سے وجود سے روح چھیلتا تھا ادھڑتی سانسوں پہ دانت اپنے چبھو رہا تھا میں درد زہ سے بھی سرخ رو ہو کے آنے والی میں آشنائے اذیت ذائقہء تخلیق اک تمسخر سے ایک تضحیک کے گماں سے خود اپنی آہٹ کی سسکیوں ...

    مزید پڑھیے

    محبت

    تمہیں جولائی کی انیسویں تپتی جھلستی دوپہر اب یاد کب ہوگی کہ جس کی حدتیں کتنے مہینوں بعد تک ہم نے بدن کے ہر دریچے پر لکھی محسوس کی تھیں اور انہیں نظمیں سمجھ کر گنگنایا تھا تمہارے جسم کی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ایک ایسا موڑ آیا تھا جہاں اوہام الہامی نظر آتے ہیں اور امکان ناکامی محبت ...

    مزید پڑھیے

    رد

    اے وادیٔ خشک و سبز پربت تو اپنی خوشبو سے ڈر رہی ہے ترے صحیفہ نما بدن پر یہ کیسی آیت اتر رہی ہے ترے فسوں ناک راستوں پر گھنیری رت کی مسافتیں ہیں فضائیں پہروں میں بٹ چکی ہیں ہواؤں تک میں عداوتیں ہیں سکوت زنداں کی پتلیوں پر نگاہ تیرہ نظر کا دکھ ہے ہر ایک روزن سے آتا جاتا ادھر کا دکھ ...

    مزید پڑھیے

    لمحہ

    ایک سلگی ہوئی سی دھڑکن پر کپکپاتے لرزتے ہونٹوں سے جسم بھر پر حروف اگتے ہیں خامشی کو زبان ملتی ہے لو پگھل کر بدن میں گھلتی ہے روح میں عکس اگنے لگتے ہیں آئنے پر سراب چلتے ہیں قطرہ قطرہ پگھلتے جذبوں پر رفتہ رفتہ پھوار پڑھتی ہے وقت کی نبض تیز چلتی ہے ہر گناہ و ثواب سے آگے آیت بے خودی ...

    مزید پڑھیے

    معصوم مشکیزے

    پیر میں تپتی دھوپ پہن کر سر پر جلتا سورج ٹانکے پیٹھ کو سگنل سے چپکائے پانی بیچنے والے سائے جن کے ہاتھ ہمیشہ سے بس پانی جنتے رہتے ہیں اور آنکھوں سے بس دو ہی دعائیں اچھلے جائیں جلتی دھوپ اور بتی سرخ ایک ہاتھ میں جگ اٹکائے اور گلاس میں انگلیاں بھر کر اپنا دوسرا ہاتھ اٹھائے ایک ہی ...

    مزید پڑھیے

    ضرورت

    ہمارے بیچ کا رشتہ ضرورت کے سوا کچھ بھی نہیں شاید ضرورت بات کرنے کی ضرورت بات سننے کی ضرورت سانس لینے کی ضرورت فرصتوں کے وقت کو آسان کرنے کی ضرورت کو محبت نام دینے سے ہمارے بیچ پھیلی یہ مسافت کم نہیں ہوتی یہ اپنا پن فقط بیگانگی پر دھول جیسا ہے میں گھنٹوں بات کرتا ہوں تمہاری فرصتوں ...

    مزید پڑھیے

    رانی

    سر پر موٹی چادر اوڑھے ہاتھوں میں اپنے سے بھاری بچہ لے کر سانولی رنگت والی رانی چلتی بس میں میٹھی سونف سپاری بیچنے آتی ہے اور بس میں چاروں جانب بیٹھے لوگوں کی یہ بھوکی نظریں اس کے کپڑے پھاڑ کے جسم کے اندر تک اتری جاتی ہیں لیکن سب سے بے پروا وہ سانولی رنگت والی رانی ایک روپے میں ایک ...

    مزید پڑھیے

    غدار

    بھوک غدار ہے بھوک میں پیٹ پر ہاتھ رکھنا گنہ پیاس غدار ہے پیاس میں آسمانوں کو تکنا گنہ لفظ غدار ہیں سچ میں لپٹے ہوئے جستجو کے نئے راستے کھولتے لفظ غدار ہیں سچ بھی غدار ہے فہم و ادراک دیتا ہوا سچ کسی دوسرے ملک کا کوئی جاسوس ہے خواب غدار ہیں زندگی کو نئی کروٹیں بخشنے والے سارے ...

    مزید پڑھیے

    رسم

    تری پرچھائیں تیرے بعد بھی گھر بھر میں پھرتی ہے کبھی گلدان میں الجھے ہوئے پھولوں کی خوشبو کی صفیں ترتیب دیتی ہے کبھی سجدے میں سر رکھے گری بکھری کتابوں کی جماعت کی جبینوں پر لگی برسوں کی گرد اور دھول پلکوں کی نمی سے ڈھوتی الماری میں قعدے بانٹی تکبیر دیتی ہے درود دوستی سے ...

    مزید پڑھیے

    پیرس

    آج اس شہر معطر نے پکارا ہے مجھے آج پھر نوحہ کناں ہیں یہاں گلیوں والے یہ وہ گلیاں ہیں جو خوشبو کی قبائیں تھیں کبھی یہ وہ چہرے ہیں جو مشہور تھے کلیوں والے انہی گلیوں سے تھی وابستہ نئی فکر کی رہ انہیں گلیوں میں معانی کے سبق ملتے تھے وحشت دور سیاست پہ ہوا کرتی تھی بحث اور قلم ہنستے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2