خوف ورنہ تو کس کے بس کا ہے
خوف ورنہ تو کس کے بس کا ہے شہر کو حادثوں کا چسکا ہے ورنہ ہم جسم تک بھی آ جاتے مسئلہ روح کی ہوس کا ہے آدمی تو خدا کے بس کا نہیں پر خدا آدمی کے بس کا ہے اک ضرورت ہے اس کے پہلو میں اور بدن سب کی دسترس کا ہے مندمل زخم رستا رہتا ہے شائبہ داغ پر بھی پس کا ہے عشق صحرا نہیں بگولا ہے اور ...