Atif tauqeer

عاطف توقیر

عاطف توقیر کی غزل

    خوف ورنہ تو کس کے بس کا ہے

    خوف ورنہ تو کس کے بس کا ہے شہر کو حادثوں کا چسکا ہے ورنہ ہم جسم تک بھی آ جاتے مسئلہ روح کی ہوس کا ہے آدمی تو خدا کے بس کا نہیں پر خدا آدمی کے بس کا ہے اک ضرورت ہے اس کے پہلو میں اور بدن سب کی دسترس کا ہے مندمل زخم رستا رہتا ہے شائبہ داغ پر بھی پس کا ہے عشق صحرا نہیں بگولا ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ گرنے لگی بدن بھر پر

    دھوپ گرنے لگی بدن بھر پر چھاؤں رکھ دے کوئی مرے سر پر بوکھلا سے گئے در و دیوار ایک دستک ہوئی کسی در پر ایک بے کار کی ضرورت تھی مسکراتی رہی مقدر پر رات تکیے پہ بوند بوند گری کائی جمنے لگی ہے بستر پر سارا دن مستقل تناؤ تھا اب ہنسی آ رہی ہے دفتر پر گھر پہ رہتا تھا ایک سایۂ غم اور ...

    مزید پڑھیے

    صحرائے کربلائے رہ عاشقاں کے بیچ

    صحرائے کربلائے رہ عاشقاں کے بیچ خوشبو سی پھوٹتی ہے یہاں ہمرہاں کے بیچ رنج شکم تا تشنہ لبی صبر ہا و ہو یہ گفتگو نہیں ہے سہولت گراں کے بیچ اب بھی چراغ پوری تمازت سے ہے فروز خیمۂ خانوادۂ شہزادگاں کے بیچ تیغائے دشمناں سے قلم ہو رہے ہیں سر لیکن ہیں سرفراز صف دشمناں کے بیچ سینۂ ...

    مزید پڑھیے

    اوڑھ لے پھر سے بدن رات کے بازو نکلے

    اوڑھ لے پھر سے بدن رات کے بازو نکلے خواب در خواب کسی خوف کا چاقو نکلے آئنے پر کسی ناخن کی خراشوں کا وہم عکس نوچوں تو وہاں بھی ترا جادو نکلے تیری آواز کی کرنوں سے تصور روشن پھول نکلے کہ ترے جسم کی خوشبو نکلے شعبدہ گر تری آغوش تلک جا پہنچا تیرے پہلو سے کئی اور بھی پہلو نکلے جشن ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہی راہ کو عمر بھر دیکھنا

    ایک ہی راہ کو عمر بھر دیکھنا کوئی آئے نہ آئے مگر دیکھنا تم ہمیں دیکھ کر کھو گئیں سوچ میں اب دوبارہ ہمیں سوچ کر دیکھنا تیرا پلکیں جھکانا ہمیں دیکھ کر پھر ادھر دیکھنا پھر ادھر دیکھنا عشق میں ٹوٹنے کا الگ لطف ہے تم کبھی عشق میں ٹوٹ کر دیکھنا ہاتھ سے اک دعا گر کے کرچی ہوئی اب مری ...

    مزید پڑھیے

    پیران جبہ و کلاہ سارا فساد ایک ہے

    پیران جبہ و کلاہ سارا فساد ایک ہے سب کا خدا الگ سہی سب کا مفاد ایک ہے چاروں طرف ہیں مذہبی چاروں طرف ہیں نفرتیں سب کی نماز ایک ہے سب کا جہاد ایک ہے طبع شعور و فکر کی زد پر رہا ہے اختیار صدیوں سے شیخ و شاہ کو ہم سے عناد ایک ہے روشن چراغ ہو یا دل تاباں قلم ہو یا خرد گرد شب خیال سے ان ...

    مزید پڑھیے

    شوق سرور شام غم اپنے سوا کسی کا ہے

    شوق سرور شام غم اپنے سوا کسی کا ہے جام و سبو کسی کے ہیں کیف و نشہ کسی کا ہے خود تک پہنچ کے دیکھیے کیا کیا پڑے گا بیچ میں گویا قبا ہے آپ کی بند قبا کسی کی ہے خیمۂ سامری کو ہے اژدر رامسس کا خوف یعنی عصا کسی کی ہے یعنی خدا کسی کا ہے کس کس خدا کا ذکر ہو کس کس خدا سے کام ہو دل میں دعا ...

    مزید پڑھیے

    شہر وحشت کو خواب گر تو ملے

    شہر وحشت کو خواب گر تو ملے آئنے سے مری نظر تو ملے گھر میں سایہ تو ٹھیک ہیں لیکن دھوپ دیوار کے ادھر تو ملے میں کہیں اور دے تو دوں دستک پر مجھے اور کوئی در تو ملے وہ میرے دن کی بھی ضرورت ہے ورنہ اک شخص رات بھر تو ملے دیکھنے والا کیا کرے آخر ڈوبنے والا ہاتھ بھر تو ملے

    مزید پڑھیے

    اس قدر ٹوٹ کر ملا ہے کوئی

    اس قدر ٹوٹ کر ملا ہے کوئی جیسے مجھ سے بچھڑ رہا ہے کوئی میرے آنگن میں کیسی خوشبو ہے جیسے اٹھ کر ابھی گیا ہے کوئی آج بھی چاہتوں کی آنکھوں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہا ہے کوئی جسم بیدار ہو رہا ہے مرا میری بانہوں میں سو رہا ہے کوئی سانس ساحل کو چھوتے رہتے ہیں میرے سینے میں ڈوبتا ہے کوئی

    مزید پڑھیے

    پندار شب غم کا دربار سلامت ہے

    پندار شب غم کا دربار سلامت ہے پر شمع فروزاں کا انکار سلامت ہے آئین زباں بندی زنداں پہ نہیں لاگو زنجیر سلامت ہے جھنکار سلامت ہے تم پا بہ شکستہ بھی افراز سری دیکھو دستور سلامت ہے دستار سلامت ہے نشہ نہیں پیمانہ آنکھیں نہیں دل دیکھو مقدار سلامت ہے معیار سلامت ہے اب جو بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2