معصوم مشکیزے
پیر میں تپتی دھوپ پہن کر
سر پر جلتا سورج ٹانکے
پیٹھ کو سگنل سے چپکائے
پانی بیچنے والے سائے
جن کے ہاتھ ہمیشہ سے بس پانی جنتے رہتے ہیں
اور آنکھوں سے بس دو ہی دعائیں اچھلے جائیں
جلتی دھوپ اور بتی سرخ
ایک ہاتھ میں جگ اٹکائے
اور گلاس میں انگلیاں بھر کر اپنا دوسرا ہاتھ اٹھائے
ایک ہی خواب میں کب سے زندہ
جلدی سے ہو سگنل سرخ
تو گاڑیاں اپنا سانس بٹھانے سڑک پر ٹھہریں
اور پسینے پانی مانگیں
ہم ہر اک گاڑی کو چھو لیں
ٹھہری کھڑکیاں ہاتھ سے اچکیں
جلتے ماتھے بیچ کے ہم بھی آٹھ آنے کی پیاس بجھائیں
جیبیں سکوں سے بھر جائیں
لیکن خواب کہاں سمجھیں گے
عمر کا سگنل سرخ ہوا
تو گاڑی دور نکل جائے گی