اوڑھ لے پھر سے بدن رات کے بازو نکلے

اوڑھ لے پھر سے بدن رات کے بازو نکلے
خواب در خواب کسی خوف کا چاقو نکلے


آئنے پر کسی ناخن کی خراشوں کا وہم
عکس نوچوں تو وہاں بھی ترا جادو نکلے


تیری آواز کی کرنوں سے تصور روشن
پھول نکلے کہ ترے جسم کی خوشبو نکلے


شعبدہ گر تری آغوش تلک جا پہنچا
تیرے پہلو سے کئی اور بھی پہلو نکلے


جشن زنداں کی روایت کا بھرم قائم ہے
جسم نے رقص کیا آنکھ سے آنسو نکلے