صحرائے کربلائے رہ عاشقاں کے بیچ
صحرائے کربلائے رہ عاشقاں کے بیچ
خوشبو سی پھوٹتی ہے یہاں ہمرہاں کے بیچ
رنج شکم تا تشنہ لبی صبر ہا و ہو
یہ گفتگو نہیں ہے سہولت گراں کے بیچ
اب بھی چراغ پوری تمازت سے ہے فروز
خیمۂ خانوادۂ شہزادگاں کے بیچ
تیغائے دشمناں سے قلم ہو رہے ہیں سر
لیکن ہیں سرفراز صف دشمناں کے بیچ
سینۂ بو تراب کی چوکھٹ ہے کربلا
یعنی حسین دم ہے غم خانداں کے بیچ